1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عبدالحی/
  4. کرکٹیریا

کرکٹیریا

جی ہاں کرکٹ کا دور دورہ ہے چیمپبنز ٹرافی کا جن سر چڑھ کر بول رہاہے، کوئی ٹی۔ وی چینل ہو کوئی گھر ہو کوئی محلہ کوئی بازار ہر جگہ ہر شخص چاہے وہ کرکٹ ایکسپرٹ ہو یا باتھ روم پلےئر سب کرکٹ کی ہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں، چیمپنز ٹرافی کو منی ورلڈکپ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں دنیا کی تقریباً سبھی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اس دفعہ یہ ٹورنامنٹ کافی دلچسپ رہا ہے کیونکہ اس اس ایونٹ میں کافی اپ سیٹ دیکھنے کہ ملے ہیں، خاص کر کہ پاکستان کی تو ہر جیت حیران کن رہی، ساؤتھ افریکہ جیسی مشکل ٹیم پھر سری لنکا کے خلاف محمد عامرکی سکورنگ اور انگلینڈ کو اُن کی ہوم گراؤنڈ میں سیمی فائنل جیسے میج میں شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کر لینا کسی معجزے سے کم نہیں لگتا، اُدھر حسب توقع انڈیا جیسی مضبوط ٹیم بھی فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے ان دونوں روایتی حریفوں کے فائنل میں آنے سے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے طبلِ جنگ بج گیا ہے، ان دونوں حریفوں کا جیسے ہی میچ شروع ہوتا ہے دُعاؤں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کرکٹ سے دلچسپی نہ رکھنے والے افراد بھی پاکستان کی جیت کی دُعاؤں اور پاکستان جیت گیا جیسے الفاظ سُننے کے لیے نوافل مان لیتے ہیں کچھ ماہرین کے خیال میں اور یہ بات بہر حال درست بھی ہے کہ اچھا کھیلنے والی ٹیم ہی میچ جیتا کرتی ہے لیکن جب پاکستان اور انڈیا کے نام کسی بھی شعبہ میں آمنے سامنے آتے ہیں تو پھر کھیل بھی ایک جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اچھا یا بُرا کچھ نہیں رہتا بس ہماری جیت ہی اختتام ہونا چاہیے پاکستان اور انڈیا کامیچ نہ صرف کھلاڑیوں کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی اعصابی بلکہ شدید ذہنی تناؤ کا کڑا امتحان ہوتا ہے میں نے ٹیلی ویژن کی خبروں میں میچ کے دوران ہارٹ اٹیک سے اموات کی خیریں بھی سنی ہیں تو آپ بس اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ کرکٹ ہماری قوم کے دل و دماغ میں کیا مقام اور اثرات رکھتی ہے، انڈیا اور پاکستان کے کرکٹ کے حوالے سے اگر ماضی قر یب کا جائزہ لیاجائے تو ہمیں معلوم ہے کے انڈیا ایک مسلسل کامیابی کی روایت ڈالے ہوئے ہے اور اگر ہم تھوڑا اور ماضی میں جھانکیں تو پاکستان کی ہندوستان کے خلاف بھی کامیابیوں کی ایک لمبی داستان ہے ا نہی لمبی داستانوں کا کریڈٹ ہے کہ ٹوٹل نمبر ز میں ابھی بھی پاکستان کی فتوحات زیادہ ہے لیکن ہماری ٹیم اب انڈیا کے خلاف جس مستقل مزاجی اور باقادگی سے ہار رہی ہے تو وہ وقت دور نہیں کہ یہ ٹوٹل نمبرز آف ویکڑی بھی برابر ہو جائیں گئے، ایسی صورتِ حال میں مجھے سعید انور یا انضمام الحق یاد آتے ہیں ان دونوں کھلاڑیوں کی پرفارمنس ہمیشہ سے خاص طور پر انڈیا کے لیے دردِ سر رہتی تھی سعید انور نے اپنا سب سے زیادہ ون ڈے سکور1997 میں انڈیا کے خلاف کیا تھاجو 194 رنز تھا اور پاکستان، انڈیا کی ٹیم کے ۲۲ کھلاڑیوں میں اگر کوئی واحد شخض بغیر پریشر کے کھیلتا تھا تو میرے خیال میں وہ بلا شبہ انضمام الحق تھا، انڈیا کے ساتھ کرکٹ میچیز کا زکر ہو اور میں 1996 کے بنگلور میں کواٹر فائنل کا زکر نہ کروں یہ کیسے ہو سکتا ہیے یہ دور ہماری وکٹریز کا دور تھا اور اُس میچ کا نتیجہ کہا جاتا ہے کہ سیاست کی نظر ہو گیا یہ پیپلز پارٹی کا دور تھا اور ہمارے سابق صدر صاحب نے اس میچ کی ہار جیت میں کلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے انڈیا نے ہمیں ورلڈکپ جیسے ایونٹ سے نکال باہر کیاتھا، مجھے لگتا ہے کہ اگر اس آنے والے چیمپنز ٹرافی کے فائنل میں اگر ہم انڈیا کو ہرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اُس کواٹر فائنل کا زخم بھر جائے گا او رکم از کم کرکٹ میں ہمارا بدلہ پورا ہو جائے گا۔ موجودہ ٹیموں کا اگر موازنہ کیا جائے تو ایک فرق جو واضح نظر آتا ہے وہ یہ کہ پاکستان کی جیت میں ہماری فاسٹ باؤلنگ کا اہم کردار ہے جسکی مدد سے ہماری رسائی فائنل تک ممکن ہو سکی جبکہ مخالف ٹیم کا دارومدار اُس کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ ہے جس کی بنیاد پر وہ کوئی بڑے سے بڑا سکور چیز کرنے یا پہاڑ جیسا حدف مخالف ٹیم کو دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، میں قارئین کو یاد کرواتا چلوں کہ موجودہ چیمپنز ٹرافی میں ہم ہندوستان ہی سے ایک میچ ہار بھی چکے ہیں اور میری ناقص سمجھ کے مطابق ٹاس جیت کر انڈیا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دینا اس ہار کی وجہ بنی کیونکہ کرکٹ کی سوج بوجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی آپ کہ یہ بتا سکتا ہے کہ دوسری باری لے کر سکور کا تعاقب کرنا ہمیشہ مشکل رہتا ہے میں اُمید کرتا ہوں کے فائنل میں اگر ہم ٹاس جیتے تو ہمارا کپتان یہ غلطی نہیں دوہرائے گا۔

آخر میں پاکستان میں کرکٹ کی مجموعی صورتِ حال کی بات کرنا بھی اشد ضروری ہے کیونکہ میں پاکستانی قوم سے یہ امید رکھتا ہوں کہ بہر حال وہ حقیقی مجموعی صورتِ حال کہ ذہن میں رکھ کر میچ دیکھیں اور اُس کے کسی بھی نتیجے کو قبول کریں میری یاداشت کے مطابق آخری بڑی کرکٹ سیریز جو پاکستانی سر زمین پہ ہوئی وہ 2009 میں تھی اور اُس سال بھی بہت مشکل سے ایک ٹیم ہمارے ملک میں آ کر کھیلنے پہ راضی ہوئی تھی لیکن افسوس کے وہ سیریز مکمل نہ ہو سکی اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پہ دہشت گردوں کے حملے کی وجہ سے سری لنکن ٹیم کو واپس بھیج دیا گیا میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ بھی پیپلز پارٹی کا ہی دور تھا اور یہ اُسی گورنمنٹ کی ہی نا اہلی تھی کہ ہمارا ملک برس ہا برس کے لیے انٹر نیشنل کرکٹ سے محروم ہو گیا یہاں تک کہ اب ہم نے اپنی لیگ بھی متحدہ عرب امارت میں کروائی کیونکہ کوئی نامور کرکٹر پاکستان میں آ کر کھیلنے کو تیار نہیں تھا لیکن اس سب کے باوجود بھی پچھلے کئی سالوں ہماری سر زمین نے کئی انٹرنیشل کھلاڑی پیدا کیے ہیں جو ایک تباہ حال قومی کرکٹ کے انفراسٹرکچر میں کھیلے اور وہاں سے غیر ملک میں جا کر پرفارمنس دی اور دنیا میں ثابت کیا کے پاکستانی قوم میں کس حد تک ٹیلنٹ موجود ہے تو بس میری آپ سب سے یہی گزارش ہے کہ نتیجہ کچھ بھی رہے اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھائیے گااُن کی کارکردگی اور فتوحات کے ماضی کے سلسلے کی دوبارہ شروعات کی دُعاؤں کے ساتھ میں بھی اپنا قلم رکھتا ہوں، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین