1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. ڈینگی تشویشناک صورتحال!

ڈینگی تشویشناک صورتحال!

ڈینگی منطقہ حارہ کے ممالک ایشیائی، افریقی، جنوب مشرقی ایشیا، شمالی امریکہ، لاطینی امریکہ، خلیج میکسیکو، فلوریڈا، ویت نام، نکارا گوا، کانگو، برازیل، آسٹریلیا، تھائی لینڈ، تائیوان اور انڈونیشیا ء ممالک میں ہزاروں جانوں کولقمہ اجل بنانے کے بعد اب پاکستان میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ جو کئی انسانی اموات کا سبب بن چکا ہے۔

ملک بھر میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 10 ہزار سے بھی متجاوز ہو چکی ہے اور مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی 314 سے بھی زائدکیسز سامنے آ چکے ہیں ۔ دیہی علاقوں میں عوام اس وائرس سے لاعلم ہیں ۔

وطن ِ عزیز کومتعدی بیماریوں ، تعلیم کی مخدوش حالت، بجلی کی کمی اور اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں ، قدرتی گیس کی لوڈ شیڈنگ اوراسکی قیمتوں میں اضافے جیسے بحران کا سامنا ہے تو وہیں ارضی و سماوی قدرتی آفات کا بھی سامنا بھی ہے، ساتھ ہی تیزی سے بڑھتا ہوا انتہائی خطرناک ڈینگی بخار بھی ہمارے لئے ایک بہت بڑی آفت کا پیش خیمہ ہے اور آنے والے وقت میں ہماری عوام کو ایک اور بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ہم مجموعی طور پر اس گھمبیر صورتحال سے بے خبر ہیں ۔ اگر ہم جنگی بنیادوں پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈینگی وائرس پر قابو پانے کیلئے تدابیر اختیار نہ کیں تو یہ وائرس پاکستان میں رہنے والوں کیلئے ایک بہت بڑی آفت لا سکتا ہے اور 2025 ء تک ڈینگی بخار میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی تعدا میں ڈرامائی طور پر 5کروڑ تک اضافہ ہو سکتا ہے جس سے بہت سے لوگ اس مرض میں مبتلا ہوکر جان کی بازی ہار سکتے ہیں ۔

ڈینگی بخار ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے یہ خطرناک بیماری موت کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری کسی دوسری وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ ڈینگی وائرس کے چار مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ وائرس انسان کے جسم میں داخل ہو تا ہے اور جسم میں پنپتا رہتا ہے اور خلیوں کو متاثر کرتا ہے اور جسم میں انفیکشن کو پھیلاتا ہے اسکے تین مراحل جن میں مریض کو ڈینگی بخار ہو جاتا ہے اور بڑی آنت میں انفیکشن پیدا کرتا ہے اور انسانی جسم میں موجود پانی اور نمکیات میں بری طرح سے کمی واقع ہو جاتی ہے پاخانے کے ذریعے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔

خون کی باریک شریانیں پنکچر ہو جاتی ہیں اور یہ خون جسم میں رسنا شروع ہو جاتا ہے اور جسم میں کمی کے باعث شدید صدمہ لاحق ہو سکتا ہے اور یہ خطرناک صورت حال انسانی زندگی کیلئے موت کاسبب بن سکتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر 15 برس کی عمر کے بچے ہو سکتے ہیں اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے اور اس صورت حال پر قابو نہ پایا جاتے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات یہ معمولی بخار، قے، جسم میں درد اور آنکھوں میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مگر یہ مریض کے جسم میں خاموشی سے نشو و نما پاتا رہتا ہے بعض اوقات اسکا حملہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس میں ناک سے خون آنا، مسوڑھوں سے خون آنا، پاخانے اور پیشاب سے خون آنا، جسم میں خون کے خلیات کی ٹوٹ پھوٹ، خون کی شریانوں کا پنکچر ہو جانا اور ان سے خون کا بہنا، شدید سر درد، جوڑوں میں شدید درد ہونا، جسم پر دھبے پڑ جانا اور آنکھوں کے پیچھے والے حصے میں شدید درد اور پیٹ میں شدید درد، نظام تنفس میں دشواری اور اعصابی نظام کی ٹوٹ پھوٹ وغیرہ کی علامات پائی جاتی ہیں ۔ یہ بیماری آج کی نہیں ، لیکن اس کے حوالہ سے منصوبہ بندی نہیں ہو سکی۔

ہینک البرالے ڈینگی بخار کے پھوٹنے کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ فلوریڈا یا پھر کہیں بھی اس بخار کے پھوٹ پڑنے کی وجوہات 75 سال پہلے امریکی سی آئی اے کے وہ تجربات ہیں جو اس نے اپنے مخالفین کے لئے ڈینگی وائرس کو پھیلانے کیلئے کئے تھے۔

اسی طرح 1978 ء میں پینٹاگون کی ایک انتہائی خفیہ دستاویز جسکا عنوان "جنگ و جدل" تھا میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ سی آئی اے کی تنظیم جو بایولوجیکل اور کیمیکل ہھتیاروں پر تجربات کرتی ہے اس نے فلوریڈا کی طرز پر کی ویسٹ میں ایسے بے شمارتجربات کئے ہیں جن میں ڈینگی وائرس اور اسی طرح کے دوسرے بایولوجیکل جراثیمی ہتھیاربھی شامل تھے۔

اسی طرح 1959 ء میں فورٹ ڈیٹریک بیل ویدر آپریشن میں مچھروں کے ذریعے پھیلائے جانے والے متعدی امراض پر راک فیلر انسٹی ٹیوٹ آف نیو یارک کے سائینسدانوں سے مل کر مچھروں کے ذریعے پھیلائے جانے والے امراض پر تجربات کئے۔

1978ء میں پینٹاگون کی ایک خفیہ دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری میں آرمور ریسرچ فاؤنڈیشن نے 1951 میں ان تجربات میں شمولیت کی جن کے ذریعے ان جراثیموں کو پھیلایا جا سکتا تھا۔

دی بیٹل میموریل انسٹیٹیوٹ نے 1952-1965 کے دوران اور بین وینیو لیبز ان کارپوریشن نے بھی1953-1954 تک ان تجربات میں حصہ لیا۔

موسم بہار میں 1981 میں کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے امریکی تنظیم سی آئی اے پر الزام عائد کیا کہ امریکی افواج اور انکے کنٹریکٹرز کیوبا میں ڈینگی وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ۔

کیوبا میں مئی اور اکتوبر 1981 کے دوران 75 ہزار افراد ڈینگی کے مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے 158 افراد کی موت واقع ہو گئی۔ اسی طرح کیوبا میں ایک دن میں دس ہزار لوگوں کے بارے میں ڈینگی کے مرض میں مبتلا مریضوں کی رپورٹ کی گئی۔ ایک لاکھ سولہ ہزار ایک سو پچاس لوگوں کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔

امریکی خفیہ جریدے کے ریسرچر ویلیم ایچ شیپ کہتا ہے کہ کیوبا میں ڈینگی وائرس پھیلانے کی ذمہ دار سی آئی اے تھی۔ اسی دوران امریکی سی آئی اے کے ذریعے کیوبا کے رہائشی علاقوں اور اسکی افواج پر اس وائر کا حملہ کیا گیا جسکی تمام تر ذمہ داری امریکی خفیہ اداروں اور کنٹریکٹرز پر عائد کی گئی۔

1982ء میں روس نے یہ انکشاف کیا کہ امریکی تنظیم سی آئی اے نے پاکستان کے راستے افغانستان میں اپنے خفیہ اداروں اور کنٹریکٹرز کے ذریعے ملیریا، ڈینگی وائرس اور اسی طرح دوسرے جراثیموں پر مشتمل مچھرپھیلائے ہیں ۔ اسی طرح 1985-1986 میں نکاراگوا نے امریکی تنظیم سی آئی اے پر الزام عائد کیا کہ امریکہ کی اس تنظیم کے ذریعے متعدی امراض جیسے ڈینگی بخار وغیرہ پھیلایا گیا ہے۔

1980 میں فورڈٹریک میں بیالوجیکل مقاصد حاصل کرنے کیلئے تجربات کئے گئے تھے یہ تجربات پہلے پہل 1950 میں کئے گئے تھے۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ڈینگی وائرس، پیلے بخار، کانگو وائرس، کلوراڈو بخار کے مچھروں کے علاوہ ایسی مکھیاں جو ہیضے کے جراثیم پر مشتمل تھیں انہیں بھی فریڈرک اور میری لینڈ میں پھیلایا گیا۔ اسی طرح قیدیوں پر بھی ان مچھروں کے اثرات کے تجربات کئے گئے جنکے بارے میں ان قیدیوں کوعلم ہی نہیں تھا کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

اب پاکستان میں ڈینگی وائرس کی یلغار وہ دوسرابڑا مسئلہ ہے۔ عدم توجہی کے علاوہ پورا ملک گندگی کی لپیٹ میں ہے ہر طرف گندگی کی ڈھیر ہیں گلی گلی اور محلے محلے اور ہر سڑک پر گٹروں کا پانی تیر رہا ہے، مگرہم اس بڑی مصیبت سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے اڑا رہے ہیں ۔ ہمیں من حیث القوم از خود اپنی مدد آپکے تحت ایک دوسرے کی مدد کرکے ڈینگی وائرس سے چھٹکارہ حاصل کر ناہوگا ہ میں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں اور آس پاس کے علاقے میں پانی نہ کھڑا ہونے دیں ۔ پانی والی ٹنکیوں کو ڈھانپ کر رکھیں اور مچھر مار ادویات کا سپرے کرکے انکی نشو نما کو روکا جائے۔ مزید یہ کہ اپنے آپکو ڈھانپ کر رہیں اور سوتے وقت مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔

اگر ایسی تشویشناک صورتحال کو عملی طور پر کنٹرول نہ کیا گیا توپوری قوم ڈینگی بخار کی لپیٹ میں آکر ہلاکتوں کا شکار ہونا شروع ہو جائیگی اور پھر اس صورت حال کو کنٹرول نہ صرف مشکل ہو گا بلکہ نا ممکن بھی ہوسکتا ہے۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔