1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. امت مسلمہ کا زوال و انحطاط

امت مسلمہ کا زوال و انحطاط

دُنیا کی تمام امن پسند اقوام کے لیے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت، نسل کشی کا سبب بننے والی برسوں سے جاری خانہ جنگی و خوں ریزی بجا طور پر شدید تشویش و اضطراب کا باعث ہے۔ اس معاملہ میں بتدریج متعدد علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی شامل ہوچکی ہیں لیکن اس کے نتیجے میں حالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال یہ مظلوم سرزمین ایک بین الاقوامی جنگ کا میدان بنتی نظر آرہی ہے۔ یہ خطہِ کشمیر تک محدود نہیں بلکہ اس وقت عالم اسلام، غیر مسلموں کے زیر عتاب ہے۔ کشمیر، فلسطین، بھارت، برما، افغانستان، عراق، شام، سوڈان، لیبیا اوریمن ہر جگہ بے بس مسلمانوں کو قتل اور ان کے علاقوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔
موجودہ صدی میں امتِ مسلمہ سب سے زیادہ پریشان، مفلو ق الحال اور مصیبت سے دو چار شکست خوردہ قوم ہے۔ اس کا نہ کوئی یار ہے اور نہ کوئی مددگار، یہ مظالم سہنے کی عادی ہوتی جارہی ہے۔ اس میں نہ تو مدافعت کی طاقت ہے اور نہ ظلم کے خلاف احتجاج بلند کرنے کی قوت، آج یہ قوم تخت مشق بنی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ دانشوارن قوم و ملت پریشان ہیں کہ جس قوم کی پیدائش کا مقصد خلافت ہے ماضی اتنا شاندار ہے کہ نہایت ہی تزک و احتشام سے حکومت کی ہے۔ جس طرف گئے عروج و اقبال سے استقبال کیا، اغیار سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرا ت تھی، وہ قوم موجودہ دور میں انحطاط کی شکار اور زوال پذیر ہے۔
اس کی وجوہات کیا ہیں؟درحقیقت اگردس ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہی انکشاف ہوتا ہے کہ جس قوم نے بھی ترقی کی، اس میں تین خوبیاں ضرور موجود تھیں: دُنیا میں ترقی کا پہلا اصول علم ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ہم اگر اسلامی دُنیا کا جائزہ لیں تو اس وقت پوری اسلامی دُنیا میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں، ان یونیورسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کریں تو ایک یونیورسٹی تیس لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصے میں آتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں صرف امریکہ میں 57057یونیورسٹیاں ہیں اور جاپان کے شہر ٹوکیو میں 1000یونیورسٹیاں ہیں۔ مغربی دُنیا کے 40فیصد نوجوان یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مسلم ممالک کے صرف 2فیصد نوجوان یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ پاتے ہیں۔ کتنی بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ جس قوم کی میراث تعلیم ہو اور وہ تعلیم سے محروم رہے۔ تعلیم کا شوق ماند پڑ چکا ہو۔ تعلیم برائے نام ہو۔
ترقی کی دوسری اہم بنیاد معیشت ہوتی ہے۔ اکسٹھ اسلامی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی صرف دو ٹریلین ڈالرز ہے جبکہ امریکہ صرف مصنوعات اور خدمات کے شعبے میں بارہ ٹریلین ڈالرز کماتا ہے۔ امریکہ کی اسٹاک ایکسچینج وال سٹریٹ بیس ٹریلین ڈالرز کی مالک ہے۔ دُنیا کی 52فیصد فیکٹریاں مغربی دُنیا میں ہیں جب کہ دُنیا کی 70فیصد صنعتوں کے مالک عیسائی اور یہودی ہیں۔
ترقی کی تیسری اہم بنیاد طاقت ہے۔ اس وقت دُنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ ہے جس کے پاس بڑی فوج ہے، دفاعی بجٹ زیادہ ہے، دُنیا میں سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں، میزائل زیادہ ہیں۔ دُنیا کا ہر کمپیوٹر اور ہر ٹیلی فون مانیٹر کر رہا ہے۔ امریکہ کے بعد چین، اسرائیل، روس، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی آتے ہیں اوراس کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے۔ ترقی کا یہی فارمولا آج تک دُنیا میں کارفرما ہے لیکن شومئی قسمت مسلمانوں نے اپنی اور دیگر اقوام کی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا اور آج ان تینوں شعبوں میں ہم دُنیا سے بہت پیچھے ہیں۔
اس وقت دُنیا میں مسلمانوں کی تعداد تقریباََ ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ دُنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، دُنیا میں ایک ہندو اور ایک بدھ مت کے مقابلے میں دو مسلمان اور ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں۔ آج دُنیا میں اکسٹھ اسلامی ممالک ہیں، ان میں سے ستاون ملک مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کے رکن ہیں لیکن ہم دُنیا کی تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود انتہائی کمزور، حقیر اور بے بس نظر آتے ہیں۔
حدیث سے امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب واضح ہیں کہ اعمال خراب ہوگئے تو یہ قوم حاکم سے محکوم ہوگئی۔ غیر قوم کا تسلط ہوگیا۔ مال و زر پر دوسروں کا قبضہ ہوگیا۔ آپس کے معاملات خراب ہیں لین دین، اخوت و بھائی چارگی کا فقدان ہے، اختلافات نے امت مسلمہ کو برباد کر دیاہے۔ ذلت و پستی، انحطاط و کمزوری، ہلاکت وتباہی امت ِمسلمہ کو جکڑ لیا ہے۔ پھر بھی یہ امت سبق لینے کے بجائے دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سے لے کر جنوب تک، اس وقت دُنیا کی مظلوم ترین قوم مسلمان ہے؛ امہ مظلوم بنی ہوئی ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب پوری دُنیا پر راج کرنے والے مسلمان ہوا کرتے تھے، ہر طرف امن و سکون تھا، مسلمان تو مسلمان، غیر مسلم بھی محفوظ تھے۔ لیکن آج دُنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ قوم مسلمان ہی ہیں۔ ہر طرف بکھری ہوئی لاشیں مسلمانوں کی ہی نظر آتی ہیں۔ شام کی صورتحال پر روئیں یا برما کے، فلسطین کو جلتا دیکھیں یا چیچنیا کو، کشمیر پر ظلم و جبر پر ماتم کریں یا افغانستان پر۔ اس وقت دُنیا کا کوئی خطہ ایسا نظر نہیں آ رہا جہاں پر مسلمانوں پر زمین تنگ نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق 1989ء سے لے کر فروری 2018ء تک قابض ہندوستانی فوج کے ہاتھوں 95000 بے گناہ کشمیری مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں 7000 ایسی گمنام قبریں بھی دریافت کی گئی ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بے گناہ نوجوان جو کئی برسوں سے غائب ہیں، یہ ان کی ہی قبریں ہوں۔ قابض ہندوستانی فوج نے جیلوں میں قید بے گناہ کشمیروں پر بھی ظلم و تشدد کی انتہا کی ہوئی ہے، جس سے بڑی تعداد میں قیدی معذور اور شہید ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں ان شہدا کی تعداد 7000 سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ اب 17دنوں سے کرفیو، کشمیر کی خصوصی حثیثت ختم کر دی گئی۔ کشمیری نہتے بوڑھے، خواتین، بچے مریض بے بس و لاچار، ادویات، خوراک کی قلت، کس کس غم کو بیان کیا جائے۔
اسی طرح افغانستان میں بھی قابض امریکی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد بے گناہ افغانی مسلمان شہید ہوئے اور اس سے کئی گناہ زیادہ زخمی بھی ہوئے، جن میں زیادہ تر اپاہج ہوچکے ہیں۔ ان تمام قتل عام پر دُنیا خاموش تماشائی کی صورت چپ سادھے ہوئے ہے۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر دھرتی بھی اشک بار ہے۔ مگر دُنیا کے رکھوالے بھول گے۔
افغانستان ہو یا کشمیر، شام ہو یا برما، فلسطین ہو یا دُنیا کا کوئی بھی خطہ جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، ان مظالم کی جتنی ذمہ داری دشمنان اسلام کی ہے، تو وہاں ہی اتحادِ امت کا فقدان، ایک دوسرے کے درد کی فکر ہی نہیں اگر ہم درست ہوجائیں اور ایک دوسرے کے درد و تکلیف میں ساتھ دیں تو کیا مجال کسی دشمن کا کہ وہ قدرت کی طرف سے مالا مال امت ِ مسلمہ کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔
اگر ہم قدرتی وسائل کا درست استعمال کریں تو ایسی ذلالت سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ امت ہے جس کے تین سو تیزہ بے سروسامان نے ہزاروں اسلحہ سے لیس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تو عالم اسلام جس کے 56 ممالک ہیں، ایک سو پچیس کروڑ آبادی ہے، پچاس لاکھ سے زائد افواج ہیں اور ایٹمی طاقت بھی ہے، وہ کیوں ان کفار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
بات یہ ہے کہ آج ہر شخص دولت کی حوس میں مبتلا ہو چکا ہے۔ چاہے وہ حکمران ہو یا عوام، سب کو صرف دولت و دُنیا کے عیش آرام نے جکڑا ہوا ہے۔ ہرشخص اس سوچ میں ہے کہ میں محفوظ ہو جاؤں، باقی سب کی خیرمگر ہم سب یہ بھول گئے ہیں کہ اگر آج ایک اسلامی ملک کی بات ہے تو کل ہم پر بھی یہ وقت آسکتا ہے۔
دوسری طرف دیکھیں توجب کہ اگر ایک غیر مسلم کو جرم کرتے ہی کیوں نہ سزا دی جائے پوری دُنیا تلملا اٹھتی ہے۔ عالمی عدالت تک بات جاتی ہے لیکن امت مسلمہ پر ہونے والے ظلم و بربریت پر سب خاموش کیوں؟۔
آج امت مسلمہ پر جو بھی ظلم و زیادتی ہورہی ہے جہاں اقوام کا بھی ہاتھ ہے وہاں ہی ہم خود بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں یکسر بھول گے ہماری تہذیب مٹ چکی۔
آج ہم نسل نو کو فلموں، ڈراموں، فیشن کی دوڑ تو سکا رہے لیکن شومی ِ قسمت اپنے حقیقی ہیروز کی تاریخ، سہنری کارناموں کا پتہ ہی نہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ نسل نو کو اپنے ہیروز جہنوں نے دُنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ دشمن ان کے نام سے کانپتے تھے ان کے نام تک یاد نہیں۔
پھر ہمیں اس سوال کا جواب کون دے گا کہ امت ِ مسلمہ کا زوال وانحطاط کیوں؟

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔