1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اخلاق احمد خان/
  4. الفاظ کی آبشار

الفاظ کی آبشار

بعض مرتبہ میں کتاب کو پڑھتا نہیں ہوں، اس سے کھیلتا ہوں۔ پچھلے دنوں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ نومبر کی ایک ٹھنڈی اور بور اتوار تھی۔ ٹائم گزارنے کے لئے ایک کتاب لے کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ الفاظ شرارتی محبوباؤں کی طرح آنکھوں کے آگے ناچنے لگے۔ انکی اچھل کود میں معانی و مطالب کی تفہیم کیا معنی ؟ الفاط و معانی کی یہ مڈبھیڑ جاری تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔

’’ ہیلو۔ ۔ ۔ ۔ کون ؟ ‘‘

’’ جی میں عبد الرحمن لکھنوی۔ ۔ ۔ ۔ اخلاق صاحب کیسے ہیں؟ بڑی مشکل سے آپ کا فون نمبر ایک اخبار کے ذریعہ ملا۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے دنوں انڈیا سے آیا ہوں ‘‘

یہ عبد الرحمن لکھنوی کون ہیں ؟ مشہور نظم گو ا ختر ا لایمان کے برادر نسبتی۔ وہ دن یاد آگئے جب 1989 میں انڈیا گیا تھا تو ا ختر ا لایمان اور عبد الرحمن لکھنوی سے ملا تھا۔ ا ختر ا لایمان کی شاعری کا دھیما، گہرا اور فلسفہ ساز تاثر قلب و ذہن پر چھاگیا۔ اختر الایمان کی شاعری قاری کے جذبات پر ہی نہیں اس کی سوچ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کون کہتا ہے کہ فلسفہ خشک، ثقیل اور بھاری ہوتا ہے۔ اختر ا لایمان کی نظمیں پڑھ کر دیکھئے فلسفہ آپ کو بہت دل فریب، میٹھا اور زود ہضم معلوم ہوگا۔ مسلسل اور طویل نظموں میں انکے فقرے الفاظ کے آبشار بکھیرتے ہیں۔ الفاط کے یہ آبشار معانی ہی نہیں دیتے معنوں کی تخلیق کرتے ہیں۔ ا ختر ا لایمان صرف نظموں کے شاعر ہیں۔ ان کا غزل فرار رویہ بہت سے شاعروں کو ان سے بد گمان کرگیا جس کا انہیں احساس تھا اور افسوس بھی۔ غالب، شیکسپیر، ٹالسٹائی اور کتنے ہی بڑے لوگ اور ادیب اپنی ذاتی زندگی میں ناکام مگر فنی زندگی میں کام یاب رہے ہیں۔ ممکن ہے اپنے زمانے کے لوگوں کو خوش نہ کرسکے ہوں مگر آنے والے زمانے کو خوش کرگئے۔ شروع میں اخترالایمان نے فلموں کیلئے بھی گانے لکھے مگر انکی سوچ و فکر فلمی شاعری سے ہم آہنگ نہ ہوسکی۔ یہ اچھا ہی ہوا ورنہ فلمی شاعری ایک خالص ادبی شاعر کو دبوچ لیتی۔ میں ایک ایسے شاعر کو جانتا ہوں جو پندرہ سال سے فلموں کے لئے گانے لکھ رہا ہے مگر اس کا کوئی گانا کسی فلم میں شامل نہیں ہوسکا۔ اخترالایمان بنیادی طور پر مشاعروں کے شاعر نہیں کتابوں کے شاعر ہیں۔ آج کل تو یہ حال ہے کہ مشاعرہ کرالو یا دنگل ایک ہی بات ہے۔ بعض شاعروں میں سخن فہمی نہیں ہوتی خوش فہمی ہوتی ہے۔ وہ مشاعروں میں معیار کا نہیں مقبولیت کا خیال رکھتے ہیں۔ بس یہ کہ ہر وقت اپنا کلام سنانے کیلئے بے چین۔ پتہ نہیں صحیح یا غلط، بہرحال سنی سنائی بات ہے کہ لکھنو کے ایک شاعر کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ جج نے اس سے پوچھا :

’’آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟‘‘

جواب دیا ’’ جی ہاں ایک تازہ غزل ‘‘

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مشاعروں میں ان شعراء کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئیے جن کے شعر اچھے نہ ہوں آواز اچھی ہو۔ جو شاعر اچھے نہ ہوں گلوکار اچھے ہوں۔ اچھی آواز کی تعریف سے انکار نہیں مگر اسکی جگہ مشاعرے کا چبوترا نہیں موسیقی کا اسٹیج ہے۔

اب بات شعر و ادب کی چلی ہے تو میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جدید اردو شاعری میں پرانی روایات کو بڑی بے دردی سے توڑا گیا ہے۔ مذہبی قیود کو توڑ کر اس کا نام آزادی فلر رکھا گیا۔ اخلاقی قیود کو توڑ کر عریانیت اور برہنگی کو اپنایا گیا۔ فنی قیود کو توڑ کر آزاد شاعری کی بنیاد ڈالی گئی اور اسکو نئے تجربات کا نام دیا گیا۔ مانا کے روایات کی پرستش قابل تعریف نہیں مگر روایات سے یکسر پہلو تہی بھی مستحسن نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آج کا کمپیوٹر ادب کو کھا جائے گا۔ طلبہ کی ادبی معلومات کا یہ حال ہے کہ ان سے پوچھا جاتا ہے:

’’بتاؤ داغ دہلوی کہاں پیدا ہوئے؟ ‘‘

جواب دیتے ہیں ’’معلوم نہیں، شاید اپنے فھر میں پیدا ہوئے ہونگے! ‘‘

کیا لوگ ادب گریز واقع ہورہے ہیں اور سائنسی علوم کی طرف جوق در جوق جارہے ہیں ؟ لیکن میرے خیال سے یہ بات نہیں۔ میں لٹریچر کے مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ لٹریچر فنون لطیفہ کا ایک حصہ ہے۔ جب تک مصوری زندہ رہے گی، جب تک موسیقی زندہ رہے گی ادب بھی زندہ رہے گا۔ ادب اور سائنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ جس طرح ادب کی ایک سائنس ہے اسی طرح سائنس کا بھی ایک ادب ہے۔ ادب کی ترقی علوم کی ترقی کے مقابلے میں دوچند ہے کیونکہ ادب نثر اور شاعری دونوں کے ذریعے ترقی کرتا ہے مگر علوم کا ارتقاء صرف نثر کے ذریعے ہوتا ہے۔

ارباب اقتدار کی کوکھ سے جو ادب پیدا ہوتا ہے بودا ہوتا ہے۔ سچا ادب وہ ہے جو متوسط طبقے کیلئے ہو اور متوسط طبقے سے ہی تخلیق کیا جائے۔ ارباب اقتدار کا دروغ اور سیاست دانوں کا تضاد تو ایک سچے ادیب کے دل و دماغ پر ہتوڑے چلاتا ہے۔ باتیں امن، بھائی چارگی، رواداری اور اتحاد کی ہوتی ہیں اور عمل لڑائی، نفاق، انتقام اور عدم اتحاد کا۔ اسی لئے ادیب کبھی افسر نہیں بنتا ہاں افسر ادیب بن سکتا ہے۔

بعض نوجوان کوئی رومانی فلم دیکھ کر فلمی ہیرو کا تصوراتی روپ اپنے ذہن میں تراش لیتے ہیں اور پھر اپنی حقیقی زندگی میں بھی اس فلم کی بازگشت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک صاحب جو مرزا غالب کی عشقیہ شاعری سے بہت متاثر تھے، اپنی محبت کی بنیاد دیوان غالب پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان کا اور انکی محبت کا کیا انجام ہوا ہوگا۔ ایک دن روتے پیٹتے میرے پاس آئے۔ میں نے کہا :

’’یا تو تمہاری محبت غلط ہے یا غالب کی شاعری‘‘

جس طرح شوقیہ شاعر ہوتے ہیں اسی طرح بعض لوگوں نے فن تنقید کو بطور فیشن اپنایا ہوتا ہے۔ اسی طرح کے ایک نام نہاد نقاد ہیں کہ جب بھی میری نئی کتاب شائع ہوتی ہے، عیب نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ انکی سوچ منفی سوچ اور انکی زبان چاقو کی زبان ہے۔

مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کواپنے کون کون سے مضامین زیادہ اچھے لگتے ہیں؟ مجھے اپنی تمام تحاریر پسند ہیں لیکن زیادہ پسند وہ تحریریں ہیں جو ابھی شائع نہیں ہوئیں مگر میرے لاشعور میں موجود ہیں۔