1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. اخلاق احمد خان/
  4. جسے امریکہ رکھے اسے کون چکھے

جسے امریکہ رکھے اسے کون چکھے

قانون اور سیاست کا فرق ہمیں اس وقت سمجھ میں آیا تھاجب ایک دفعہ سابقہ چیف جسٹس رانابھگوان داس نے اخباری نمائندوں کے سیاسی سوالات کا جواب دینے سے انکار کردیاتھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر گفتگو کا دروازہ بند کردیا تھاکہ جج سیاسی سوالوں کا جواب نہیں دیتے۔ بچپن میں ایک دفعہ ہم نے اپنے سائنس کے ٹیچر سے تاریخ کا ایک سوال پوچھ لیا تو انہوں نے کہا ’’میں سائنس کا ٹیچر ہوں تاریخ کا سوال نہیں بتاسکتا۔ اگر تاریخ کے متعلق کچھ بتاؤں بھی تو زیادہ سے زیادہ یہ بتاسکتا ہوں کہ آج کیا تاریخ ہے‘‘

بھگوان داس کے اس احتیاط پسندانہ انکار سے ہم نے نتیجہ نکالا تھاکہ ججوں کے جذبات انکے دماغ کے ماتحت ہوتے ہیں جبکہ سیاست دانوں کا دماغ انکے جذبات کا ماتحت ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے سیاست داں کبھی سچ بول دیں تو اگلے دن انہیں تردید کرنا پڑتی ہے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر شائع کیا گیا ہے۔ میں ایک با ضمیر آدمی ہوں اور میرا ما فی الضمیر وہ نہ تھا جو اخبار والوں نے لکھا ہے۔ یوں اخبار والے نا حق بد نام ہوتے ہیں۔ ویسے ریاضی کی رو سے ایک ریاضی دان نے اخبار کا حسب ذیل فارمولہ پیش کیا ہے:

سچ + جھوٹ x افواہ 236 اخبار

عورتیں اپنی عمر کے بارے میں اتنا جھوٹ نہیں بولتیں جتنا لیڈر اپنی سیاست کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ اگرچہ عمر کا سیاست سے وہی تعلق ہے جو فوج کا اقتدار سے۔ سیاست کسی بھی عمر میں کی جاسکتی ہے اسی طرح فوج کسی بھی وقت اقتدار میں آسکتی ہے۔ ایک صاحب نے ہم سے کہا کہ پاکستانی سیاست دانوں میں سب سے کم جھوٹ جونیجو نے بولا ہے۔ ہم نے جواب دیا ’’انہوں نے سچ بھی کم بولا ہے، وہ کم گو تھے‘‘

جس زمانے میں ہم نئے نئے بالغ ہوئے تھے لیڈروں کی تقریر بڑے احترام و عقیدت کے ساتھ سنا کرتے تھے کہ تقریرتو صرف ایک گھنٹے کی ہوتی تھی مگر ہم دو گھنٹے تک اسے سنتے رہتے تھے۔ اب بڑے شوق اور اکتاہٹ کے ساتھ سنتے ہیںیعنی تقریر سننے سے پہلے جتنا شوق ہوتا ہے، سننے کے بعد اتنی ہی اکتاہٹ ہوجاتی ہے۔ پہلے ہم سوچا کرتے تھے پاکستان میں فلمی ہیرو زیادہ ہیں یا سیاسی ہیرو؟ اب سوچتے ہیں پاکستان میں فلمی کامیڈین زیادہ ہیں یا سیاسی کامیڈین؟ اب تو اس حد تک سیاسی جلسے سے گھبرانے لگے ہیں کہ جس دن شہر میں کوئی سیاسی جلسہ ہوتا ہے ہم شہر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ ٹی وی ڈراموں کا ہمیں شوق نہیں ہاں سیاسی ڈرامے کبھی کبھار دیکھ لیتے ہیں۔ سیاسی ڈراموں کے پروڈیوسر ہمارے لیڈر ہوتے ہیں۔ ان ڈراموں میں ولین کا کردار ظاہر ہے اپوزیشن لیڈر کو ادا کرنا ہوتا ہے۔

لیڈر کی تقریر اسکے سیاسی کیریر میں ایک اہم کردار انجام دیتی ہے۔ جو شخص اسکی تقریر لکھ کر دیتا ہے وہ اسکے لئے تقریر نویسی نہیں بلکہ تقدیر نویسی کرتا ہے۔ بعض مقررین کی تقریر اتنی معیاری ہوتی ہے کہ سامعین خود کو غیر معیاری سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک مقرر کی تقریر ہم نے سنی، وہ بتدریج سامعین کے جذبات میں حرارت پیدا کرتے اور تقریر کے اختتام پر اسے نقطہ عروج پر پہنچادیتے۔ اگرچہ انکے لڑکھڑاتے ہوئے مدہوش فقرے معانی و مفہوم کو اور واضح کررہے تھے۔ بعض مقرر عوام سے خطاب کررہے ہوں تو معلوم ہوتا ٹیچر کو سبق سنا رہے ہیں۔ آنجہانی ماؤ شین ویت نام کے بہت حساس، رحم دل، نرم خو، زود رنج اور عوام دوست مقرر تھے۔ دوران تقریر انہیں یہ فکر لاحق رہتی کہ انکی تقریر کہیں حاضرین کے ذوق سماعت پر گراں نہ گزرے۔ چنانچہ انکی تقریر سننے کیلئے بہرے سامعین کو بٹھایا جانے لگا۔ پھر یہ ہوا کہ جہاں تالیاں بجانے کا موقع آتا سامعین رونے لگتے اور جہاں المیہ اظہار کی ضرورت پیش آتی سامعین تالیاں بجانے لگتے۔

سیاسی جلسے میں اسٹیج سکریٹری کا وہی مقام ہوتا ہے جو کرکٹ میچ میں وکٹ کیپر کا۔ اسٹیج سکریٹری مقرر کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے یا کرسکتا ہے جو وکٹ کیپر باؤلر کے ساتھ۔

خوش قسمتی کہیے یا شایدبد قسمتی کہ سیاست کے حد درجے شوقین ایک صاحب ہیں ر۔ م، ہمیں ان کادوست ہونے کا شرف حاصل ہے۔ سیاست کے جراثیم انہیں شادی کے بعد اپنی زوجہ سے ملے۔ اکثر کہتے ہیں کہ مجھے جہیز میں جو سب سے قیمتی چیز ملی وہ یہی جراثیم تھے۔ ان کی سسرال میں خاندان کا ہر دوسرا شخص سیاست میں حصہ لیتا ہے۔ پہلے شخص کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔ صاحب سیاست کا شادی سے وہی تعلق ہے جو کرکٹ کا پچ سے مثلاً کلثوم نواز کی شادی نواز شریف سے نہ ہوتی تو وہ کبھی سیاست میں نہ آتیں۔ آصف زرداری اگر بے نظیر کے نکاح میں نہ آتے تو کبھی پابند سلاسل نہ ہوتے۔ گویا بے نظیر نے انہیں سیاست اور جیل دونوں کی راہ دکھائی۔ کوئی ہم سے پوچھے کہ آصف زرداری بڑے سیاست داں ہیں یا بے نظیر تو ہم کہیں گے آصف زرداری بے نظیر سے شایددو سال بڑے تھے اور بے نظیر آصف زرداری سے شایدڈیڑھ انچ چھوٹی تھیں۔

ہاں تو میں اپنے سیاسی دوست ر۔ م کا ذکر کررہا تھا۔ صاحب ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے۔ بڑا ہوکر اگر وہ سیاست داں بن جائے تو اس میں قصور معاشرے یا حالات کا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کراچی میں کئی سیاسی بگاڑ ر۔ م کی ذات با برکات کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں۔ میں جتنی دیر میں کپڑے بدل کر آتا وہ اپنا ارادہ بدل لیتے۔ اور ارادے ہی پر کیا موقوف جناب کو نوکری، عادت، پارٹی، پینترا، کروٹ اور بیان بدلنے پر قدرت حاصل ہے۔ غرض بیوی کے سوا ہر چیز منٹ کی چوتھائی میں بدل لیتے ہیں۔

موصوف کی گفتگو میں اتنی سرد مہری ہے کہ لگتا ہے لفظ ہونٹوں سے نہیں ڈی فریزر سے نکل کر برآمد ہورہے ہیں۔ مستزاد یہ کہ ایک زمیندار ہیں اور ہر وقت اپنی زمین پر بیٹھے چین کی بنسری بجاتے رہتے ہیں۔

ہمارا ملک اب تک آزاد نہیں ہوا۔ 1947ء سے پہلے ہم برطانیہ کے غلام تھے اور 1947ء کے بعد امریکہ کے غلام ہوگئے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلی حکومت کے دور میں آصف زرداری کی گرتی ساکھ اور ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لئے امریکہ نے امدادی سامان بھیج دیا تھا۔ اسی زمانے میں ایک اپوزیشن لیڈر نے اپنے جلسے میں دعوی کیا تھا کہ زرداری گورنمنٹ اب چند دن کی مہمان ہے تو ایک طرف سے آواز آئی تھی:

’’!‘‘