1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. آج کے ٹک ٹاکرز

آج کے ٹک ٹاکرز

بوریت ہوجائے تو کبھی کبھی ٹک ٹاک اوپن کرکے دیکھتا ہوں کہ پاکستانیوں نے آج کل نیا کونسا ٹرینڈ چلایا ہوا ہے، حیران بھی ہوتا ہوں اور پریشان، حیران اس لئے کہ یہ لوگ ایسے کیسے کرلیتے ہیں؟ ہم تو بازار میں جائیں تو پیچھے سے کسی کو اونچی آواز میں صدا نہیں لگا سکتے کیوں کہ شرم آتی یے اور ایسا کرنے سے اردگرد کے تمام لوگ متوجہ ہوکر ہمارے منہ تکنے لگتے ہیں اور سوچتے ہیں "انہوں کی ہوگیا"؟ پر یہ ٹاک ٹاکرز کیسے سڑک کنارے ڈانس بھی کرلیتے ہیں؟ کیسے یہ رش والی جگہ پہ اُلٹی سیدھی حرکتیں کرلیتے ہیں؟ یعنی شرم بھی نہیں آتی؟ اور یہ عجیب وغریب حرکات و سکنات صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی کرتی ہیں۔

کچھ دن پہلے ٹرینڈ چلا تھا کہ لڑکی اور لڑکا یا پھر صرف لڑکے پیچھے سے چل کر کیمرے کی جانب آتے ہیں اور اس طرح سلو موشن میں اچھا خاصہ فلمی سین بن جاتا تھا تب میں سوچتا تھا یہ سب چل کر کہاں جارہے ہوتے ہیں؟ تو جواب ملا جا کہیں نہیں رہے ہوتے بس ٹک ٹاک ویڈیو کے لئے ایسا ایکشن بناتے ہیں۔

اب پریشان اس لئے ہوجاتا ہوں کہ جوان لڑکیوں کو والدین اس طرح لاکھوں لوگوں کے سامنے کیسے بیہودہ گانوں پر رقص کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں؟ مطلب کہ صرف شہرت فالوونگ اور لائکس کے چکر میں آپ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں؟ اور والدین فخر محسوس کرتے ہیں؟

کچھ دن سے دو ٹک ٹاکرز کو دیکھ رہا ہوں جن میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی، لڑکی ایک مشہور پرائیویٹ کالج کی سٹوڈنٹ ہے خوبرو ہے، اس نے کلاس میں نصیبو لال کے گانے پہ ہلکا ہلکا رقص کیا، کالج میں ہی زیادہ تر ویڈیوز بناتی ہے اور ہاں رقص کے دوران وہ سر سے حجاب بھی نہیں اترنے دیتی، اور اپنے انسٹاگرام اکاونٹ پہ ساتھ پہلے حجابی بھی لکھ رکھا تھا، کچھ ویڈیوز اس کے اپنے گھر میں ہیں جس میں بھی سر پہ حجاب تو ہے پر لباس ویسا نہیں جیسا ہماری روایات ہیں، کیا کالج انتظامیہ ایسی ویڈیوز جان بوجھ کر بنانے کی اجازت دیتی ہے؟ یا وہ بے خبر ہیں؟ ایک تعلیمی ادارے میں انڈین یا پاکستانی پنجابی گانوں پہ ایسی ویڈیوز بنانے کی اجازت دینا قوم کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟

دوسرا شخص ایک خوبصورت نوجوان ہے، جو جہاں جائے دونوں ہاتھوں کو گھوڑے کی لگام جیسا بناتا ہے اور ایک ٹانگ کو بار بار اوپر نیچے کرتا ہے اور اس ویڈیو پر جو میوزک لگاتا ہے اس میں آواز آتی ہے "اے گھوڑے دیا بچیا" اور وہ صاحب اس پہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ اسے گھوڑے کا بچہ کہا جارہا ہے، اگر اس جملے کو گہرائی میں سوچا جائے تو کیا مطلب بنتا ہے آپ خود سمجھدار ہیں۔

بے شک یہ ان لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے ان کی اپنی زندگی یے جیسے چاہیں جئیں پر کچھ تو اخلاقیات بھی ہوتی ہیں، ان لوگوں کے دیکھا دیکھی اب چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں بھی بچپن سے ہی بڑے ہوکر میلن فالوورز والا ٹک ٹاکر بننے کے خواب دیکھنے لگے ہیں، الٹی سیدھی ایکٹنگ کرتے ہوئے کئی نوجوان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔