1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. باقر النمر

باقر النمر

سعودیہ کے مشرقی صوبہ دمام کے شیعہ اکثریتی شہر قطیف کے ساتھ ہی عوامیہ نامی ایک شیعہ گاوں ہے جہاں سو فیصد شیعہ مسلمان رہتے ہیں۔ عوامیہ انتہائی تنگ گلیاں اور خستہ گھروں والا گاوں ہے جہاں کے شیعہ اکثر غریب ہیں۔ حکومتی سختیاں اور پابندیاں یہاں کے رہائشیوں کو کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عوامیہ کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی، پھل و سبزی اور مچھلی کا کاروبار کرنا ہے۔ قطیف میں عرب کی سب سے بڑی مچھلی منڈی ہے۔

آپ عوامیہ میں داخل ہوں تو آپ کو ہر طرف سیاہ پرچم، دیواروں پر احتجاجی جملے، لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہرے، حکومت کی طرف سے غائب یا شہید کئے گئے نوجوانوں کی تصویریں اور تقریباً ہر گھر پر گولیوں کے نشان نظر آئیں گے۔انہیں خستہ حال گھروں میں ایک گھر ہے جو گولیوں اور راکٹ لانچرز سے آدھے سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے۔ یہ گھر کسی عام شیعہ کا نہیں بلکہ سعودیہ کے معروف شیعہ عالم دین باقر النمر شہید کا ہے۔ میں نے باقر النمر کو وہاں ایک بار دیکھا تب وہ گھر کے باہر زمین پر بیٹھے تھے اور ان کے سامنے چند بچے بیٹھے تھے اور باقر النمر بچوں کو تبلیغ کر رہے تھے ساتھ قہوہ بھی پی رہے تھے۔

کمزور جسمامت اور سادہ شخصیت کے مالک باقر النمر نے ایف اے تک تعلیم عوامیہ میں حاصل کی اس کے بعد اسلامی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ دس سال ایران میں پڑھنے کے بعد شام کے مدرسہ زینبیہ میں تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے بعد آپ جب سعودیہ واپس آئے تو آتے ہی عوامیہ، قطیف، دمام میں نماز جمعہ باجماعت کے لئے کوشش شروع کردی اور ہر دفعہ ہی حکومت کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے عوامیہ میں نماز جمعہ کا اجتماع شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی امام الاقائم کے نام سے عوامیہ میں اسلامی ادارے کی بنیاد ڈالی۔ آپ گاہے بگاہے حکومتِ وقت سے سعودی عرب میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے رہے۔ ہر سال آٹھ شوال کو یومِ انہدام جنت البقیع پر احتجاجی مظاہرے کرتے رہے اور جنت البقیع میں آئمہ اہل بیتؑ و صحابہ کرامؓ کی مزارات کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے پر زور مطالبہ کرتے رہے۔

شیخ نمر نے اپنے ایک خطبہ میں اپنے سخت نظریات کی وجہ سے سعودی حکومت سے کہا:میں جانتا ہوں کل مجھے اسیر کرنے کیلئے آئیں گے۔ گرفتار کرنا، جیل میں اذیتیں دینا اور قتل کرنا یہی انکی منطق اور راہ ہے لیکن ہم قتل و غارت سے نہیں ڈرتے بلکہ ہم کسی چیز سے ہراساں ہونے والے نہیں ہیں۔ سعودی شہری اور بالخصوص شیعہ شہریوں کی توہین کی نسبت بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے۔ انکی نگاہ میں سعودی حکومت شیعوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے اور اس حکومت نے انہیں ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ وی سعودیہ کے شیعہ عوام کی عزت اور حقوق کی حمایت کریں گے۔ شیخ نمر آل سعود اور آل خلیفہ کو برطانیہ و امریکہ کے پیروکار سمجھتےتھے۔ وہ مسلسل اپنی تقریروں میں خود خواہانہ سیاسی تبدیلیوں، حکومتی سطح پر عوامی آزادی اوراقلیتوں کے حقوق کو قانونی طور پر قبول کرنے اور سعودیہ میں بعض گروہوں کو ایک جانب لگانے کی مخالفت کرتے رہے۔

سعودیہ اور بحرین میں آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومت کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شیخ النمر کو 2003 سے لے کر پھانسی تک چھ مرتبہ گرفتار کیا گیا اور انتہائی اذیت میں رکھا گیا۔ آخری مرتبہ آپ پر حملہ کیا گیا اور آپ کی ٹانگ میں چار گولیاں پیوست ہوئیں اور آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ دورانِ قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اور کئی سال عدالت میں بھی پیش نہیں کیا گیا۔ کئی سالوں بعد جب آپ کو عدالت میں پیش کیا گیا تو آپ کو وکیل کے حق سے بھی محروم رکھا گیا اور آپ پر 33 الزامات عائد کئے گئے اور آخری پیشی پر پھانسی کا حکم سنا دیا گیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران صرف ایک بار آپ کو بغیر قلم کاغذ دئیے پانچ منٹ کے لئے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔

کئی سال کی قید و بند کی صعوبتوں کے بعد آخر 2 جنوری 2016 کو باقی چالیس شیعہ افراد کے ساتھ آپ کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ آپ کی شہادت کے بعد دنیا بھر میں شیعہ مسلمانوں اور انسانیت کی فلاح کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے آل سعود کے خلاف احتجاجات کئیے۔ آپ کی شہادت پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید خامنہ ای نے کہا تھا کہ باقر النمر کا بے گناہ خون بہت جلد آلِ سعود کی حکومت کے تخت کو الٹ دے گا۔

سعودی عرب بظاہر ایک اسلامی ملک ہے اور بقول ان کے وہاں اسلامی حکومت قائم ہے مگر کیا وجہ ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں ہزاروں لوگوں کو بے گناہ قید و موت کی سزائیں سنائی جاتی ہیں اور ان کو اپنی صفائی بھی پیش کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہ کیسی اسلامی حکومت ہے جہاں پردیسیوں اور اقلیتوں کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ آلِ سعود کی گردن پر ہزاروں بے گناہ لوگوں کا خون قرض ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ آلِ سعود خود اپنے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہیں۔ خدا بے گناہ خون کے مقدمہ میں خود مدعی ہوتا ہے اور اس کا انصاف ضرور ایک دن ظالموں کو گرفت میں لے گا۔

التماسِ دعا برائے بلندیِ درجات شیخ باقر النمر شہید