1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. مومنِ قُریش (1)

مومنِ قُریش (1)

سعودی عرب میں قیام کے دوران میرا زیادہ تر وقت سعودی عرب کے جنوبی علاقہ جات میں گزرا ہے، طائف سے لے کر نجران تک کا علاقہ نہایت ہی خوبصورت ہے۔ وہاں کے لوگوں کا کلچر یمنی ہے کیونکہ سعودی لوگوں کے بقول یمن کا علاقہ طائف سے شروع ہوجاتا ہے۔ یمنی کلچر میں مرد حضرات ایک جڑی بوٹی کا گول سا ٹائر بنا کر سر پہ رکھتے ہیں، کمر کے ساتھ ایک بیلٹ باندھ کر پیٹ کے اوپر بڑا سا خوبصورت چاندی کا خنجر لٹکاتے ہیں۔ وہاں قیام کے دوران اکثر سعودی لوگوں کی شادی اور دیگر تقریبات میں شرکت کا موقع ملتا رہا۔ چونکہ وہاں ابھی بھی قبائلی نظام ہے ہر قبیلے کا ایک بزرگ سردار ہوتا ہے اورہر گاوں کا ایک امیر ہوتا ہے، کسی بھی مسئلے کا فیصلہ قبیلے کے سردار کے مہمان خانہ (ایک بڑا سا خیمہ نما) پہ ہوتا ہے۔ عرب لوگوں میں ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ کسی بھی محفل میں بزرگ کی آمد پہ سب لوگ کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں اور بزرگ کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہیں، وہاں آنے والے بزرگ کی حیثیت نہیں سفید بالوں کی قدر کی جاتی ہے۔ بزرگ جب تک بیٹھے گا نہیں تب تک کوئی دوسرا نہیں بیٹھتا۔ عرب میں تمام روایات بہت قدیمی ہیں جو نسل درد نسل چلے آرہی ہیں۔ عربی زبان چونکہ اپنےاندر نہایت ہی فصاحت و بلاغت سموئے ہوئے ہے اسی لئے عرب کے لوگ اکثر شاعر اور شاعری پسند کرنے والے ہیں۔

مجھے بچپن سے ہی حضرت ابو طالبؑ کی ذات سے بہت لگاو تھا، میں ان کے جاہ وجلال اور شان و شوکت سے بہت متاثر تھا، حالانکہ ہمیں بچپن سے ان کے ایمان نا لانے کی ہی خبر سنائی جاتی رہی لیکن اس کے باوجود میرا دل اس بات کو کبھی نہیں تسلیم کرپایا، حتیٰ کہ پہلی دفعہ جب مکہ مکرمہ حاضری ہوئی تب ہی دل سرکارِ ابو طالبؑ کی مرقد پہ حاضری کو تڑپتا رہا، پھر جب میں عرب کے قبائل کے بزرگ سردار دیکھتا تو ان کو دیکھ کر یہی سوچتا رہتا کہ جیسے اس سردار کا اپنے علاقہ اور قبیلہ پہ اثرو رسوخ ہے ویسے ہی آج سے چودہ سو سال پہلے سردارِ مکہ جناب ابو طالبؑ کا ایسے ہی رعب و دبدبہ ہوتا ہوگا، ایسے ہی بڑے بڑے سردار ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوتے ہوں گے، ویسے تو مکہ و بنو قریش کے سردار اور آج کے عرب سرداروں کا کوئی موازنہ نہیں لیکن چونکہ ہم اس وقت وہاں موجود نا تھے اس لئے آج کے دور میں ان قبائلی عمائدین کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔

آج بھی آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جنت المعالیٰ میں جائیں تو اس مومنِ قریش حضرت ابوطالبؑ کی قبر پہ حاضری دیتے وقت ایک عجیب سا رعب و دبدبہ محسوس ہوتا ہے، احساس ہوتا ہے جیسے ایک بہت بارعب اور جاہ و جلال کا مالک سردار سکون سے سویا ہوا۔ جس سردار کا دنیا سے جانے کے بعد بھی اتنا دبدبہ ہے وہ جب حیات ہوگا تو عرب کے بدو ان کے سامنے سانس لینا بھول جاتے ہوں گے۔ حضرتِ ابو طالبؑ نا صرف قریش کے سردار تھے بلکہ اپنے وقت کے باکمال شاعر بھی تھے اسی لئے سرکارابو طالبؑ کی حیاتِ مبارکہ پہ میری قسط وار تحاریر میں اس پہلی تحریر کا اختتام امام جعفر صادقؑ کی بیان کردہ ایک روایت پہ کرتا ہوں :-

ابو الفرج اصفہانی نے اسناد کے ساتھ امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ امام علیؑ کو یہ بات بہت پسند تھی کہ حضرت ابوطالبؑ کے اشعار کی روایت کی جائے اور فرمایا کہ تم لوگ ان اشعار کو پڑھواور اپنی اولاد کو بھی ان اشعار کی تعلیم دو اس لئے کہ حضرت ابو طالبؑ اللہ کے دین پہ تھے اور ان کے اشعار میں بے انتہاء علم ہے۔