1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. مومنِ قُریشؑ (4)

مومنِ قُریشؑ (4)

کہیں بھی کوئی محفل نعت ہو یا مجلس عزا یا پھر کوئی بھی دینی پروگرام ہو ہمیشہ پروگرام کے آخر پہ شرکاء میں لنگر نیاز تقسیم کی جاتی ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ چاہے گھر میں اچھے سے اچھا کھانا موجود ہو لیکن پھر بھی مفت کا لنگر زیادہ لذید لگتا ہے، آپ سیاسی جلسے دیکھ لیں ہر جماعت کے جلسہ میں ایک جیسا رش ہوتا ہے وہ رش سیاسی پارٹی کی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے نہیں بلکہ جلسہ کے آخر پہ ملنے والی بریانی کی کشش کیوجہ سے ہوتا ہے۔ اگر یہ لنگر پروگرام کے شروع میں ہی تقسیم کردیا جائے تو اسی فیصد لوگ کھانا کھاتے ہی گھروں کو چلے جائیں گے، لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ دعوت نامےبھیج کر یا اعلانات کروا کے لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے اور اس اجتماع کا مقصد بتانے کے بعد شرکاء کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک محفل کا انعقاد اللہ کے حکم سے کیا گیا، اللہ نے اپنے رسول کریم ؐ کو حکم دیا کہ اب اپنے اقرباء کو جمع کرکے اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالتؐ کا اعلان کردیں۔ چونکہ عرب قبائل پہلے ہی رسولِ اکرمؐ کی تبلیغ سے نالاں تھے جب اللہ کی طرف سے یہ وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے اس خوف کا اظہار کیا کہ کہیں یہ عرب کے بدو آپؐ کو نقصان نا پہنچائیں تب جنابِ ابوطالبؑ نے آپؐ کو تسلی دی اور تمام عرب قبائل کے سرداروں اور باثر افراد کو اپنے گھر دعوت پہ مدعو کیا، اس دعوت کے شرکاء کے طعام کا انتظام حضرت علیؑ کے ذمہ لگایا گیا، جب قریش جمع ہوگئے تو ان کو کھانا پیش کیا گیا کھانا کھانے کے بعد آپؐ نے جوں ہی اپنی تبلیغ کا آغاز کیا ابولہب نے آپؐ کی بات کاٹ کر لوگوں سے کہا کہ اس نے آپ لوگوں پہ جادو کردیا ہے یہ بات سنتے ہی تمام لوگ منتشتر ہوگئے۔ دوسرے دن پھر اس دعوت کا انتظام کیا گیا لیکن پہلے دن کی طرح دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا، تیسرے دن جناب ابوطالبؑ نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور آپؐ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ میرا بیٹا آپ کو اپنے رب کا پیغام دینا چاہتا ہے آج کھانا بعد میں کھائیں گے پہلے میرے بھتیجے کی بات کو سنا جائے گا، یہ بات سنتے ہی جوں ہی ابولہب بولنے لگا، حضرت ابوطالبؑ کو جلال آگیا اور کڑک دار آواز سے کہا اے اعور(ناکارہ چیز) خاموش ہوجاو اور کہا کوئی یہاں سے اٹھ کرنہیں جائے گا پھر آپؐ کو فرمایا اے میرے سردارؐ آپ کھڑے ہوجائیے اور ارشاد فرمائیے جو بھی آپ چاہتے ہیں، اور اپنے رب کا پیغام پہنچا دیجئے اس لئے کہ آپ صادق ہیں اور آپ کی بات حق ہے۔

ایک ایسا شخص جو دین میں دلچسپی نا رکھتا ہو، عبادات کی طرف رغبت نا رکھتا ہو یا پھر ایک ایسا شخص جسے کلمہ طیبہ کے الفاظ بھی صحیح سے ادا کرنے نا آتے ہوں، یا ایک ایسا شخص جو شراب و کباب میں مست رہتا ہو، خدا و رسولؐ کا نافرمان ہو اس کی جب شادی کی بات ہورہی ہو اور عین نکاح کے وقت کسی ہندو پنڈت کو بلا لیا جائے کہ پنڈت جی اس مسلمان بھائی کا نکاح پڑھا دیں تو یقیناً وہ شخص چاہے دین سے کوسوں دور ہو، ہرگز یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کا نکاح ایک غیر مسلم پڑھائے، ان عقلوں پہ اور ان زبانوں پہ اور ان راویوں پہ حیف ہو جو جنابِ ابوطالبؑ کو مسلمان تو تسلیم نہیں کرتے لیکن آپؐ کو نکاح خوان مان لیتے ہیں۔ ایک عام انسان اپنا نکاح غیر مسلم سے پڑھوانا گوارہ نہیں کرتا تو جو بانیِ شریعت اور امام الانبیاءؐ ہو وہ اپنا نکاح کیسے اس شخص سے پڑھوا سکتے ہیں و مسلمان ہی نہیں؟

تب قرآن کریم نازل نا ہوا تھا جب پیغمبرِاکرمؐ کے نکاح کا خطبہ کا آغاز حضرت ابوطالبؑ نے الحمد اللہ کے الفاظ سے کیا، بعد از حضرت عبدالمطلب، جنابِ ابوطالبؑ نے اپنے بھتیجے جنابِ رسول اللہ ص کی ہرطرح سے حفاظت کی، دعوت ذولعشیرہ ہو یا عقدِ پیغمبرؐ کا موقع ابو طالبؑ اور اولادِابوطالبؑ نے ثابت کیا کہ وہ خدا کے دین اور اس کے نبیؐ کے نگہبان و محافظ ہیں۔

ہمارے علاقہ میں اس انسان کو نمک حرام کہا جاتا ہے جو کسی کے گھر کا نمک کھالے اور پھر اس سے بے وفائی کرجائے، دعوت ذولعشیرہ پہ پیٹ بھر کے کھانے والوں کی اولادیں آج ابوطالبؑ کے گھرانے سے نمک حرامی کر رہی ہیں یا نمک حلالی اس کا اندازہ آپ کسی محفل میں مومنِ قریش ابوطالبؑ یا ان کے بیٹے علی ابن ابی طالبؑ کا ذکر چھیڑ کر بخوبی لگا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)