1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. مومنِ قُریشؑ (7)

مومنِ قُریشؑ (7)

عرب میں چونکہ ابھی بھی قبائلی روایات ہیں، ہر قبیلہ کا ایک بزرگ سردار ہوتا ہے، پورا قبیلہ اس کی تعظیم کرتا ہے، اپنے باپ کی طرح عزت و احترام دیتے ہیں، چونکہ وہ بزرگ قبیلہ کے بزرگوں کی اولاد ہے اور ان کا سردار ہے اس وجہ سے یہ تعظیم و تکریم کی جاتی ہے۔ چھوٹے بچے سے نوجوان مرد تک ہر کوئی اپنےبزرگ سردار کے ماتھے کا بوسہ لیتا ہے۔

برصغیر میں آپ کسی بھی دربار پہ چلے جائیں وہاں کے گدی نشین کی حد سے زیادہ عزت و تعظیم کی جاتی ہے، بعض درباروں پہ تو پیر صاحب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو راستے کے دونوں کناروں پہ لوگ ہاتھ باندھ کر اور سر کو جھکا کر احترامً کھڑے ہوجاتے ہیں، بعض تو اپنے سر سے پگڑیاں اتار کر پیر صاحب کے قدموں میں بچھا دیتے ہیں اور کچھ مریدین تو عقیدت میں اپنے مرشد کو سجدہ بھی کر لیتے ہیں۔ ہمارے علاقہ میں ایک دربار کی حدود میں داخل ہوتے ہی مریدین سر پہ سفید ٹوپی پہن لیتے ہیں، بعض لوگ اس دربار پہ آنے کے لئے گھروں سے ننگے پیر چل پڑتے ہیں، گھٹنوں کے بل بھی اپنے مرشد کے دیدار کے لئے مریدوں کو جاتے دیکھا ہے، اپنے مرشد کے گھر کا چھوٹا بچہ بھی اگر راستے میں مل جائے تو تعظیمً سر جھکا لیتے ہیں، بسم اللہ بسم اللہ مرشد کا ورد شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عزت، یہ احترام یہ عقیدتیں صرف اس لئے ہیں کہ گدی نشین قبر میں سوئے ہوئے اللہ کے ولی کی نسل سے ہے۔

ہمارے شہر میں ایک سید صاحب ہیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ انکا شجرہ رسول اللہ ص سے جا ملتا ہے، اس نسبت کی وجہ سے پورا علاقہ ان کا احترام کرتا ہے، ان کو پیٹھ کرکے کوئی نہیں چلتا، ہر عید پہ ان کو گھوڑے پہ بٹھا کر عید گاہ لے جاتے ہیں، ہر نیک کام کا آغاز ان سید صاحب کے ہاتھوں کرواتے ہیں۔

حضرت ابوطالبؑ نے ہمارے آقا کریمؐ کو جب سے اپنی گود میں لیا تب سے لیکر آخری دم تک وفا نبھائی، جب تک زندہ رہے تب تک عرب کے کسی بدمعاش کی جرآت نا ہوئی کہ آپؐ کو تکلیف دے، جب حضرت ابوطالبؑ کا آخری وقت آیا تو قریش کو جو وصیتیں کیں ان میں قابل ذکر یہ وصیت تھی کہ " میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ حضرت محمدؐ سے بہترین سلوک کرنا، اس لئے کہ وہ قریش میں حاکم اور عرب دنیا میں سچے ہیں ان میں یہ تمام صفات یکجا ہیں، میں تمہیں جن کی وصیت کر رہا ہوں وہ تمہارے پاس ایسا امر لے کر آئے ہیں جس کے سامنے باغات جنت ہیں اور زبان ننگ و عار کی وجہ سے بظاہر انکار کر رہی ہے، خدا کی قسم عرب کے تمام محتاج اور مفلوک الحال لوگوں کومحمدؐ کی طرف ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ اے عرب کے لوگو تم محمدؐ کی جماعت کی حمایت کرو، جو بھی اس راستے پہ چلے گا ہدایت پا جائے گا۔ میں کلمہ شہادت کی گواہی دیتا ہوں اور ان کے قول کی تکریم و تعظیم کرتا ہوں۔

جنابِ ابوطالبؑ کی وفات اسی سال کی عمر میں ١۵ شوال، ذی القعد یا ٢٦ رجب المرجب کی روایات کے مطابق ہوئی۔ امام علیؑ نے آپؐ کو اپنے والد کی وفات کی خبر دی تو آپؐ بہت غمگین ہوئے اور گریہ کیا اور فرمایا اے چچا آپ نے قرابت داری کا حق ادا کردیا آپ کے لئے جزائے خیر ہو۔ آپ نے بچپن میں میری پرورش کی اور کفالت کی جب میں بڑا ہوا تو آپ نے نصرت اور پشت پناہی کی پھر آپؐ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا خدا کی قسم میں اپنے چچا کی ایسی شفاعت کروں گا جس سے دنیا و آخرت کے باشندے حیران رہ جائیں گے۔

چونکہ ایک ہی سال میں آپؐ کے چچا اور پیاری زوجہ جنابِ خدیجہؑ نےوفات پائی تو آپؐ نے اس سال کو غم کا سال کہا۔

ویسے عجب ہی سوچ ہے مسلمانوں کی عرب اپنے قبیلہ کے سردار کی عزت اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ سردار ان کے بزرگوں کا منتخب شدہ اور ان کی اولاد میں سے ہے۔

برصغیر میں دربار کے گدی نشین کا احترام اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ ولی اللہ کی اولاد میں سے ہے۔

سید کی تعظیم سب مسلمان اس لئے کرتے ہیں کیونکہ سید صاحب اولادِ محمدؐ سے ہیں۔

آخر یہ کیوں بھول جاتے ہیں ہم نبیؐ کی اولاد یا نبیؐ کے غلام کی عزت و احترام تو دل و جان سے کرتے ہیں مگر اس مومنِ اول، اللہ کے ولی، مومنِ قریش ابو طالبؑ کا احترام کیوں بھول جاتے ہیں جن کی اولاد محمدؐ ہیں؟ ایک دنیاوی پیر کی اولاد سے اتنا پیار اور جس نبیؐ پہ اپنی جان قربان کرتے ہیں اس کی جان کو جہنمی کہتے ہیں۔ جس اونٹنی کی نسبت رسول اللہ ص سے ہوجائے اس کی نعتیں پڑھتے ہیں، اور جنکی نسبت رسول اکرمؐ ہوں اس پاک ہستی ابو طالبؑ کے ایمان پہ شک کرتے ہیں۔

جنابِ ابو طالبؑ پہ بہت لوگوں نے لکھا اور شاید لکھنے والوں سے کبھی حق ادا نا ہوپائے گا، بس خدا سے التجاء ہے کہ بروزِ قیامت اس مومنِ حق کی نعلین کے صدقے ہمارا شمار ان کے حبداروں میں ہو آمین۔