1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (13)

متولیِ کعبہ (13)

واقعہ اصحابِ فیل کے بعد سیدنا عبدالمطلب اپنے معمولاتِ زندگی پر واپس آگئے، پہلے کی طرح اب پھر آپ بھوکوں کو کھانا کھلانے اور قربانیاں کرکے سکونِ قلب حاصل کرنے لگے، اصحابِ فیل کی تباہی اور کعبہ کی سلامتی نے آپ کے دل و دماغ پہ ایسے اثرات چھوڑے کہ آپ غارِ حراء چلے جاتے اور غور و فکر میں مبتلا رہتے، ابھی اصحابِ فیل واقعہ کو باون یا پچپن دن گزرے تھے اور آپ ایک رات خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نے مقامِ ابراہیم کی جانب سجدہ کیا، ہبل نامی بت جو بہت بڑا تھا وہ منہ کے بل گِر گیا صفاء بلند ہوگئی اور مروہ کو اضطراب میں پایا، آپ جنابِ آمنہؑ کے گھر کی طرف دوڑے کے آپ کو ایک کنیز نے آپ کے پوتے کی آمد کی خوشخبری دی، سیدہ آمنہؑ نے آپ کے پوتے کو آپ کی گود میں رکھا آپ پوتے کو لے کر کعبہ میں لے گئے، پوتے کو بغور دیکھا اور پیار دیا اور خداوند تعالیٰ سے آپ کے لئے فتنہ و شر سے پناہ مانگی اور اللہ کی اس عطاء پہ شکر ادا کیا۔

واپس آکر پوتے کو ان کی ماں کی گود میں رکھا اور اسی دن آپ نے اپنے پوتے کا نام "مُحمدؐ" (درود ضرور پڑھئیے) رکھا، جنابِ آمنہؑ نے کہا میں نے خواب میں اس کا نام احمدؐ رکھا، حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا اس کے بہت سے ناموں میں سے یہ دو نام محمدؐ اور احمدؐ ہیں۔ جناب عبدالمطلب کے باقی بیٹے بھی یعنی اپنے بھتیجے کو دیکھنے کے لئے آئے، عبدالعزیٰ (ابولہب) کو جب اس کی کنیز نے بھتیجے کی پیدائش کی خبر دی تو اس نے اپنی کنیز ثوبیہ کو جنابِ رسول اللہ ص کی خدمت کے لئے مختص کردیا۔ رسول اللہ ص کی آمد نے سیدنا عبدالمطلب کو بہت سکون بخشا، اب آپ خانہ کعبہ کی دیوار کے سایہ میں مسند بچھا کر بیٹھنے لگے، آپ تمام وقت لوگوں سے اپنے پوتے کی ہی باتیں کرتے رہتے تھے، آپؐ کی ولادت کے موقع پر مکہ اور مکہ سے باہر کافی سارے غیر معمولی واقعات بھی پیش آئے اور لوگ یہی واقعات سنانے کے لئے جنابِ عبدالمطلب کی خدمت میں آنے لگے۔

آپ کی بیٹی اور رسولِ اکرمؐ کی پھپھی جنابِ صفیہ نے اپنے بابا سے بیان کیا کہ ولادت کی رات میں وہیں تھی اور ولادت کے وقت میں نے دیکھا کہ ایک نور ظاہر ہوا جس کی روشنی چراغ سے زیادہ تھی، اس وقت میں نے چھ عجیب علامات دیکھیں، ایک یہ کہ جب بچہ زمین پہ آیا تو اس نے سجدہ کیا، دوسرا یہ کہ سر اٹھا کر فصیح زبان میں لا الہ الا اللہ انی رسول اللہ کہا، تیسرا کہ میں نے پورے گھر کو نور سے منور دیکھا، چوتھا جب میں نے اسے نہلانا چاہا تو آواز سنی ہم نے اسے نہلا بھیجا ہے، پانچواں یہ مختون تھا اور چھٹا یہ کہ اس کی پشت پر دونوں کاندھوں کے درمیان ایک ابھرا ہوا نشان تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی والدہ نے بتایا کہ میں اس روز آمنہؑ کے پاس تھی جب بچے کا جسم میرے ہاتھوں پہ آیا تو میں نے اپنے کانوں سے اس کا گریہ اور نیاز سنا پھر ایک غیبی آواز آئی "یرحمک ربک" یہ سن کر مجھ پہ لرزہ تاری ہوگیا۔

سیدنا عبدالمطلب دیوارِ کعبہ کے سائے میں اپنے نو بیٹوں کے ساتھ بیٹھے تھے چند معزز یہودی آپ کی محفل میں آئے اور دریافت کیا کہ گزشتہ رات آپ کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوا آپ نے کہا ہاں تو انہوں نے کہا اسی رات ہم نے دیکھا کہ وہ سراج منیرمتولد ہوچکا ہے جو سید الاولین و آخرین ہوگا، جناب عبدالمطلب نے ولادت کا پورا واقعہ سنایا تو یہودی علماء نے کہا توریت کی خبر درست نکلی۔ انہی دنوں یوسف نامی ایک یہودی عالم مکہ آیا تو قریش کی ایک محفل میں آکر پوچھا آپ میں سے ایسا کون ہے جس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے انہوں نے جناب عبدالمطلب کا بتایا تو اس نے آپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جب اسے آپ کے پاس لایا گیا تو اس نے کہا میں اس بچے کو دیکھنا چاہوں گا، آپ نے اپنے پوتے کو کپڑے میں لپیٹ کر لائے تو اس رسول اللہ ص کی آنکھوں میں کچھ دیکھا اور پھر کندھوں کے درمیان دیکھا وہاں موجود قریش ہنسنے لگے تو اس نے کہا اے قریش مجھ پہ ہنسو مت خدا کی قسم یہ صاحبِ شمشیر پیمبرؐ ہے تمہیں ہلاک کرے گا اور تم اس کے غلبہ کی خبر مشرق سے مغرب تک سنو گے، تب تم اسکی نبوت کے قائل ہوگے، اب نبوت بنی اسرائیل منتقل ہوچکی ہے، یہ خبر پورے مکہ میں پھیل گئی۔

آنحضرتؐ کی ولادت کے چھٹے یا ساتویں روز آپ نے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا، پورے مکہ شہر کو دعوت دی، اونٹ ذبح کئیے گئے خوب صدقہ و خیرات بھی کئیے گئے اور جشن منایا گیا، دعوت کے اختتام پہ قریش نے پوچھا اے عبدالمطلب پوتے کا نام کیا رکھا تو آپ نے کہا" محمدؐ " سب نے کہا بچے کا نام اپنے بزرگوں کے نام پہ نہیں رکھو گے آپ نے فرمایا میں چاہتا ہوں آسمان پہ اللہ اس کی تعریف کرے اور زمین پہ اللہ کی خلقت اس کی تعریف کرے۔

جاری ہے۔