1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (16)

متولیِ کعبہ (16)

خانہ کعبہ کے طواف کے لئے جب لوگ دور دراز سے آتے تھے تو ان کے کپڑے گندے اور بدبودار ہوجایا کرتے تھے، کعبہ کے محافظ انہیں گندے کپڑوں کے ساتھ طواف کی اجازت نہ دیتے تھے، یوں عربوں نے طواف سے پہلے کپڑے اتار کر برہنہ طواف شروع کردیا، اس سے فحاشی بڑھنے لگی، سیدنا عبدالمطلب نے کعبہ کے انتظامی امور کے ادارے کی جانب سے حاجیوں میں دو چادریں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا، چونکہ وہ چادریں سلائی کرنے کا انتظام نہ تھا تو حاجیوں نے ایک چادر تہمند کے طور پہ اور دوسری سے ناف سے اوپر والا جسم کا حصہ ڈھانپ لیا، یوں احرام کی بنیاد رکھ دی گئی جو آج تک جاری ہے، حضرت عبدالمطلب نے تاریخ میں پہلی بار کعبہ کے طواف کے لئے خاص لباس متعارف کروایا۔ سیدنا عبدالمطلب کے بعد والے قبیلے نے برہنہ طواف دوبارہ شروع کردیا، اسی لئے نوہجری میں جب مسلمانوں پہ حج فرض ہوا تو رسول اللہ ص نے اس سال حج نہ کیا کیوں کہ اس وقت تک برہنہ حالت میں طواف کیا جاتا تھا، پھر فتح مکہ کے موقع پہ آقا کریمؐ نے اللہ کے حکم سے برہنہ طواف پہ پابندی لگا دی۔

عہد جاہلیت میں عربوں میں حرام و حلال کھانےکی تمیز نہ تھی، خانہ بدوش عرب ہر قسم کے کیڑے مکوڑے اور حرام جانور کھاجایا کرتے تھے، حضرت عبدالمطلب نے عربوں کو حرام حلال چیزوں کی تمیز کرنا سکھائی اور اکثریت قریش حرام جانور کھانا چھوڑ گئے۔

قریش اور باقی عربوں میں اپنے اپنے بتوں پر جانور ذبح کرنے کا رواج تھا، یہ طریقہ بنی خزاعہ سے نکلا تھا، بتوں پہ جانور ذبح کرکے گوشت لوگوں میں تقسیم کیا جاتا تھا مگر بنی اسمعیلؑ پر اس وقت بھی یہ گوشت حرام تھا، سیدنا عبدالمطلب نے قریش اور عربوں کو بتوں پر ذبیح کرنا منع فرمایا چونکہ آپ انہیں حکم دے کر منع نہیں کرسکتے تھے تو آپ انہیں اپنے عمل سے تبلیغ کیا کرتے تھے، سیدنا عبداللہ کی قربانی ہو یا زمزم کے خزانہ پہ قرعہ اندازی یا پھر ابرہہہ کے حملے کا موقع آپ نے کبھی غیر اللہ سے مدد نہیں مانگی اور نہ ہی بتوں سے دعا کی، آپ ذبح بھی اللہ کے نام پہ کرتے اور دعا بھی ہمیشہ اللہ کے حضور ہی کیا کرتے تھے۔

سیدنا عبدالمطلب ہفتے میں ایک خاص دن جو عربوں میں یوم الستہ یعنی ہفتے کا چھٹا دن کہلاتا تھا، قریش کو جمع کرتے اور اپنے مخصوص طریقہ سے انہیں تبلیغ کرتے، بری باتوں سے بچنے اور اچھی باتوں کو اختیار کرنے کی تلقین کرتے، یہاں تک کہ یوم الستہ سے یوم الجمع مشہور ہوگیا، چونکہ اس دن آپ تمام قریش کو خاص تبلیغ کے لئے جمع کرتے تھے اس لئے بعد میں اس تخصیص کے لئے۔ کا اضافہ عربی زبان کے قواعد کی رو سے کردیا گیا اور یہ پھر یوم الجمعہ کہا جانے لگا۔ آپ اس دن کا خاص اہمیت دیتے اور جمعہ کے روز غارِ حرا میں عبادت کرتے، کسی بھی کام کا آغاز جمعہ کے دن سے کرتے تھے، اس طرح جمعہ کا تقرر سیدنا عبدالمطلب کی ہی یادگار ہے۔

آپ نے حج کی رسومات میں تبدیلی کی، پہلے عرب طواف کے دوران اپنے بتوں کو یاد کرکے ان کے قصائد پڑھا کرتے تھے، حضرت عبدالمطلب نے اس موقع پہ علی الاعلان اور باآواز بلند اللہ کا ذکر کیا اور اللہ کی قوت و طاقت اور نعمتوں کی طرف عرب و قریش کی توجہ دلائی، مکہ کے قریب صفاء و مروہ دو پہاڑیاں ہیں، چونکہ ان کی نسبت جنابِ ابراہیمؑ و اسمعیلؑ کی طرف تھی مگر حج پہ آئے حاجی ان پہاڑیوں کی جانب توجہ نہ دیتے تھے، اور صفاء و مروہ کی سعی بھی نہ کیا کرتے تھے، سیدنا عبدالمطلب نے حاجیوں کی اس جانب توجہ مبذول کروانے کے لئے ان پہاڑیوں کے قریب قربانی کرنا شروع کردی، آپ نے صفاء و مروہ کے متعلق حجاج کو بتایا تو ان کے دِلوں میں ان مقدس پہاڑیوں کے لئے محبت پیدا ہوگئی اور پھر اسلام آنے کے بعد ان پہاڑیوں کے درمیان سعی کو واجب قرار دے دیا گیا۔

جناب ہاشم بن عبدمناف نے اپنے دورِ سرداری میں امراء کو اپنے مال سے کچھ حصہ نکال کر غرباء پہ خرچ کرنے کا حکم دیا، ابتدائی دور میں اسے ماعون کہتے تھے، قرآن نے بھی لفظ ماعون کو زکوٰة کا قریبی معنی میں استعمال کیا جس سورة میں یہ الفاظ استعمال ہوا وہ سورة ماعون ہے۔ ماعون یعنی امداد کرنا، جناب ہاشم دور دراز سے آئے حاجیوں کی حالت زار دیکھتے تو خود بھی اور باقی امیر قریش افراد سے ان کی مدد کرنے کو کہتے، زکوة دینے کا یہ طریقہ جناب عبدالمطلب نے بھی اپنی زندگی میں جاری رکھا اور دوسروں کو بھی ترغیب دی۔

انبیاء علیہ السلام میں یہ شرف صرف نبی مکرمؐ کے دادا عبدالمطلب کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے عبادت دعا یا نماز کا ایک طریقہ ایک خاص اسلوب میں قائم و رائج کیا، اور اسے عام لوگوں خصوصاً قریش میں عام کیا، مراقبہ کی ابتداء قریش میں عبدالمطلب نے ہی کی وہ ہر ماہ چند روز خصوصاً جمعہ کے دن اور ماہ رمضان کے پورے ایام میں غارِ حراء میں جاکر عبادت کرتے تھے، آپ سفر پہ جانے سے پہلے کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر اللہ سے دعا کرتے تھے، آپ کا یہ طریقہ دعا اور عبادت آہستہ آہستہ قریش میں مشہور ہوتا گیا اور لوگ آپ کی تقلید میں چاشت کے وقت ہر روز خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر پھر ساتھ ہی بیٹھ کر دعا یا عبادت کرتے تھے، بعد میں اس دعا کے ابتدائی طریقہ کو الصلوة کہا گیا یہ ایک رکعت نماز تھی جس میں قیام و قعود داخل کئیے گئے، عبادت کے وقت میں اضافہ کے لئے اسے دوگنا یعنی دو رکعت کردیا گیا، اور یہی وہ نماز ہے جو اسلام سے چالیس سال قبل احناف اور کچھ قریش ادا کرتے تھے اور تمام قریش اس نماز سے واقف تھے وہ کسی کو روکتے نہ تھے۔

سیدناعبدالمطلب کہا کرتے تھے اے اللہ اگر میں جانتا کہ تجھے کون سا طریقہ زیادہ پسند ہے تو اسی کے مطابق تیری پرستش کرتا لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

جاری ہے۔