1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (6)

متولیِ کعبہ (6)

بنی جرھم جب مکہ سے فرار ہوئے تھے تو انہوں نے زم زم کے کنویں میں سونے کے ہرن اور قیمتی ہتھیار ڈال کر کنویں کو پتھروں سے بھر کر اوپر مٹی ڈال دی اس طرح زم زم کا کنواں زمین کے ساتھ برابر ہوگیا اور بعد میں آنے والوں کو معلوم نہ ہوسکا کہ زم زم کہاں تھا، بنو جرھم کے ایک مرد اسناف بن بغی اور نائلہ بنت ویک نے خانہ کعبہ میں زنا کیا جن کو خدا نے سزا کے طور پہ پتھر میں تبدیل کردیا، جب مکہ میں بت پرستی عروج پہ ہوئی تو اہل مکہ نے ان بتوں کو زم زم کے مقام پہ نصب کردیا اور ان بتوں کو عشق و محبت کی دیوی کے طور پہ پوجنا شروع کردیا، وہاں قربانیاں بھی کرنے لگے، اسی لئے وہاں جانوروں کی گندگی اور خون جمع ہونے لگا، جب وہ جانور ذبح کرتے تو کوے اکھٹے ہوکر خون و گوشت پر ٹوٹ پڑتے اسی وجہ سے چیونٹیاں بھی جمع ہوجایا کرتی تھیں۔

جب جناب عبدالمطلب نے مسلسل چار بار یہ خواب دیکھا تو اپنے بیٹے کو لے کر حرم کے اندر اس کنویں کو تلاش کرنے لگے اور آخر ان دو بتوں کے درمیان ڈھیر سارے کووں کو زمین پر چونچیں مارتے دیکھا جب قریب گئے تو وہاں جانوروں کی لید اور خون جمع تھا وہاں کافی تعداد میں چیونٹیاں بھی تھیں، آپ کو یقین ہو گیا کہ اسی مقام کے نیچے زم زم کا کنواں ہے، آخر آپ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر کدال اٹھائے اس مقام پر پہنچ گئے، آپ کو دیکھ کر اہلِ مکہ بھی جمع ہونا شروع ہوگئے، آپ نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو قریش نے کہا کہ ہم آپ کو ہرگز یہ بت نہیں ہٹانے دیں گے، لیکن حضرت عبدالمطلب نے انتہائی سختی سے کہا کہ چونکہ یہ جگہ کھودنے کا حکم مجھے میرے اللہ نے دیا ہے اس لئے ہرگز میں اپنے ارادے سے باز نہیں آوں گا اور اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر اس جگہ کو کھودنے لگے، قریش آپ کا سخت رویہ دیکھ کر وہاں سے چلے گئے، آپ مسلسل تین دن تک اس جگہ کو کھودتے رہے اہل مکہ میں سے کسی نے آپ دونوں باپ بیٹے کی مدد نہ کی ایک غلام نے مدد کرنا چاہی تو آپ نے اسے منع کردیا اور کہا یہ حکم صرف میرے اور میری اولاد کے لئے ہے کوئی ہماری مدد نہ کرے، آخر تیسرے دن آپ کی کدال ایک سخت چیز سے ٹکرائی آپ نے اس جگہ کو مذید کھودا تو نیچے سے دو سونے کے ہرن نکلے یہ وہی دو ہرن تھے جو شاہ فارس نے خانہ کعبہ پر چڑھاوا چڑھایا تھا، ان دو ہرنوں کے ساتھ کافی مقدار میں تیر تلوار نیزے اور زرہ بھی نکلیں، آپ نے قریش کو بلا کر دیکھایا کہ دیکھو خدا نے پانی کے ساتھ ساتھ مجھے خزانے اور ہتھیاروں سے نواز دیا ہے۔

خزانے کو دیکھ کر قریش لالچ میں آکر آپس میں باتیں کرنے لگے کہ اب اس خزانے کا مالک کون ہوگا؟ حرب بن امیہ بھی وہاں پہنچ گیا، اس نے اہل مکہ کو اس بات پہ اکسایا کہ چونکہ یہ خزانہ حرم کی حدود سے برآمد ہوا ہے اس لئے اس پہ سب کا حق ہونا چاہیے، قریش نے بھی حرب بن امیہ کی ہاں میں ہاں ملائی، جب کہ بنو ہاشم کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ زم زم کی کھدائی کا حکم عبدالمطلب کو خدا نے دیا ہے اس لئے اس پہ حق بنو ہاشم کا ہی ہوگا، قریب تھا کہ دونوں گروہ تلواریں نکال کر آپس میں جھگڑتے جناب عبدالمطلب نے کہا کہ آپس میں خدا کے حرم کے اندر خزانے کی خاطر مت لڑو ہم یہ فیصلہ قرعہ اندازی سے کرلیتے ہیں دونوں گروہ اسی بات پہ متفق ہوگئے اب قرعہ اندازی میں خزانے کی ملکیت کا فیصلہ یوں رکھا گیا کہ حرمِ خدا، عبدالمطلب یا تمام قریش کے نام کا قرعہ ڈالا جائے گا جس کا نام نکلا اسی کو خزانہ دیا جائے گا اور پھر قرعہ خانہ کعبہ کا نکل آیا، یوں جناب عبدالمطلب نے وہ سونے کے ہرن کعبہ پہ خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور باقی قیمتی ہتھیار خانہ کعبہ میں سجائے جائیں گے۔

وہ دن قریش آپس میں جھگڑتے رہے، تب تک زم زم دریافت نہ ہوا تھا، اگلے دن جب حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کو لے کر کھدائی شروع کرنے لگے تو قریش نے آپ کا مذاق اڑانا شروع کردیا آپ بے نیاز ہوکر کھدائی میں مگن رہے، حرب بن امیہ نے پہلے سے زیادہ آپکا مذاق بنایا، قریش حطیم میں جاکر بیٹھ گئے اور آپ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے، ادھر قریش گپیں لگا رہے تھے کہ ادھر خدا نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور زم زم زمین سے اُبلنا شروع ہوگیا، پہلے تھوڑا گدلا پانی تھا پھر بعد میں انتہائی میٹھا، ٹھنڈا اور صاف و شفاف نکلنے لگا، پانی کو دیکھ کر جناب عبدالمطلب نے زور دار نعرہ لگایا پہلے خود پانی پیا پھر بیٹے کو پلایا، قریش نے سمجھا عبدالمطلب کو پھر کوئی خزانہ مل گیا وہ بھاگے بھاگے وہاں پہنچے جہاں حضرت عبدالمطلب فخر سے پانی کو اچھال رہے تھے آپ نے قریش سے فرمایا: اللہ کا وعدہ پورا ہوا میری تمنا پوری ہوئی، دیکھو اے قریش یہ اسمٰعیلؑ کا کنواں ہے، یہ حاجیوں کے پینے کا پانی ہے، جو اللہ نے دیا ہے۔

چونکہ عرب میں پانی کا کنواں کسی گراں قدر نعمت سے کم نہیں ہوتا تھا تو یہ دیکھتے ہوئے قریش نے خوشامدی رویہ اپنایا سب سے پہلے جناب عبدالمطلب کی جد کی تعریفیں کرنے لگے اور کہا تمہارا شکریہ اے ہاشم کے بیٹے تم نے ہمارے لئے یہ کنواں تلاش کیا، لیکن جناب عبدالمطلب قریش کی اس روش کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ صرف کنویں پر اپنا حق جتانے کے لئے ایسی باتیں کررہے ہیں اس لئے آپ نے قریش سے دو ٹوک بات کی سن لو اے قریش اس کنویں میں کسی بھی فرد کا ذرہ برابر بھی حصہ نہیں ہے یہ میرا کنواں ہےاسے تلاش بھی میں نے کیا، اسے میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کھودا ہے یہ پانی حاجیوں کے لئے اور یہ رب نے مجھے حکم دیا ہے۔

جاری ہے۔