1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (8)

متولیِ کعبہ (8)

زم زم کی وراثت پر خدائی فیصلہ کے بعد قریش نے بھی حضرت عبدالمطلب اور ان کی اولاد کو دل سے زم زم کا حقیقی وارث تسلیم کرلیا، یوں حضرت عبدالمطلب کو سکون ملا اور آپ نے اپنی تمام تر توجہ حرمِ کعبہ کے انتظامی امور کو مزید بہتر بنانے پر دی، آپ نے زم زم کا کنواں دوبارہ تعمیر کروایا اور اسے اہلِ مکہ کے لئے وقف کردیا، اس سے پہلے جناب عبدالمطلب کو حجاج کے لئے پانی جمع کرنے کے لئے مکہ سے پچاس ساٹھ میل دور مختلف کنووں سے پانی جمع کرنا پڑتا تھا، لیکن زم زم دریافت ہونے کے بعد یہ پریشانی دور ہوگئی۔

حرب بن امیہ ہر وقت اسی ٹوہ میں رہتا تھا کہ کسی طرح عبدالمطلب کو الجھا کر رکھا جائے اور وہ عرب میں اپنی اچھائی کی وجہ سے مشہور نہ ہوجائے، اسی دوران کعبہ سے وہ دو سونے کے ہرن چوری ہوگئے جو شاہ فارس نے کعبہ ہر چڑھاوا چڑھایا تھا، ہرن چوری ہونے کے بعد پوری مکہ میں شور مچ گیا اور سب جناب عبدالمطلب سے سوال کرنے لگے اور کچھ نے اس چوری کو آپ کے انتظامی امور کی کمزوری کہا، حضرت عبدالمطلب کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ عرب میں یہ بات بہت ہی میعوب سمجھی گئی کہ خانہ خدا میں سے چوری ہوگئی، جنابِ ہاشم نے قریش کو چوری ڈکیتی کے کام چھڑوا کر تجارت پر لگا دیا جس سے قریش کے مالی حالات بہت اچھے ہوگئے اور وہاں چوری کرنے کی عادت کسی کو نہ تھی، سب حیران اسی بات پر تھے کہ آخر یہاں ایسا کون ہے جس نے حرمِ مکی سے سونے کے ہرن چوری کرلئے؟

ابھی تک چوروں کی چھان بین جاری تھی کہ حضرت عبدالمطلب کا ایک یہودی پڑوسی اذنیہ نامی تاجر قتل ہوگیا، وہ یہودی بہت مال دار آدمی تھا اس کے قتل کا مقصد ہرن چوروں سے دھیان ہٹانا تھا، حرب بن امیہ نے مکہ سے باہر کے ایسے لوگ اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے جو لڑائی بھڑائی بنانے میں ماہر تھے، جن میں صخر اور عامر سر فہرست تھے، یہودی عموماً شراب کی تجارت کرتے تھے اسی لئےوہ باقی لوگوں سے زیادہ مالدار بھی تھے، ایک حرب کی اس اذنیہ نامی یہودی سے تلخ کلامی ہوگئی بات ہاتھا پائی تک پہنچی تو حرب نے اسے اپنی نظروں میں رکھ لیا اور ایک دن موقع پاکر جان بوجھ کر سخت کلامی کی چونکہ حرب نے ساتھیوں کو پہلے سے تیار کر رکھا تھا اس لئے موقع پاکر اس کے ساتھیوں نے اذنیہ کو قتل کردیا اور اس کا مال لوٹ لیا چونکہ قاتل براہ راست حرب نہ تھا اس لئے وہ آزاد گھومتا رہا، اور قاتلوں کو فرار کروا دیا، حضرت عبدالمطلب کو قاتلوں کے بارے علم نہ تھا مگر وہ لگاتار ٹوہ میں رہے اور ایک دن انہیں پتہ چل گیا کہ اذنیہ کے قاتل عامر اور صخر ہیں۔

اسی دوران مقتول کے ورثاء عبدالمطلب کے پاس آئے اور کہا کہ چونکہ آپ سردار ہیں اس لئے قصاص و دیت لے کر دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے حضرت عبدالمطلب انصاف پسند طبیعت کے مالک تھے حرب نے ان کے ساتھ جہاں جہاں زیادتی کی آپ نے پلٹ کر اس سے بدلہ نہ لیا مگر اب بات چونکہ ایک انسان کے قتل کی تھی تو آپ نے حرب بن امیہ کو بلوا بھیجا اور اسے کہا کے قاتلوں کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا حرب نے قتل سے صاف انکار کردیا اور فساد کھڑا کر دیا آپ نے بات کو بڑھانا مناسب نہ سمجھی اور خاموش ہوگئے، اس کے بعد آپ نے قریش کے بزرگان کو جمع کیا اور تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا، اور انہیں آمادہ کیا کہ حرب بن امیہ سے تعلق ختم کردیں اور ہر طرح کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے جب تک وہ قاتلوں کو ہمارے حوالے نہ کرے، قریش نے ایسا ہی کیا اور یہ سختی حرب زیادہ دن برداشت نہ کرسکا اور دیت دینے پر آمادہ ہوگیا، اور مقتول کے چچا زاد بھائی کو سو اونٹ اور لوٹا ہوا مال واپس کیا جو مال ضائع ہوگیا وہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے پاس سے پورا کرکے مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا۔ اس طرح اس قتل میں حرب کا ہاتھ ثابت ہوگیا۔

539 ہجری کا سال حضرت عبدالمطلب کے لئے بہت پرسکون اور مسرتوں بھرا سال تھا، آپ کا اس وقت تک ایک ہی بیٹا تھا حرب بن امیہ کے طعنے پر آپ نے قریش کے سامنے منت مانی تھی کہ اللہ مجھے دس بیٹے دے اور وہ میرے سامنے زندہ رہے تو ان میں سے ایک بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کروں گا، آپ نے شادیاں کیں اور اسی سال آپ کے ہاں دو بیٹے ابوطالبؑ اور عبدالعزیٰ(ابولہب) پیدا ہوئے، اس خوشی میں بہت سارے اونٹ ذبح کئیے اور اہلِ مکہ کی ایک بڑی دعوت کی، اپنے پرائے نے سیر ہوکر کھایا اس دعوت نے آپ کو بہت قلبی سکون دیا اور آپ نے اس طرح غرباء و مساکین کے لئے باقاعدہ لنگر تقسیم کرنا شروع کردیا اور ایک وقت میں سو اونٹ قربان کروایا کرتے تھے، مسافر، غریب و نادار اور خاص و عام کو دعوت عام ہوتی تھی اور جو گوشت بچ جاتا اسے جنگل، میدان اور پہاڑوں پر ڈال دیا جاتا تاکہ وہاں موجود چرند پرند بھی بھوکے نہ رہیں، آپ کی یہ سخاوت دیکھتے ہوئے آپ کا لقب"مطعم الطائر" یعنی پرندوں کو کھلانے والا مشہور ہوگیا۔

جاری ہے۔