1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. پریشانیوں کا گلاس

پریشانیوں کا گلاس

ایک سائیکالوجسٹ نے کسی جگہ پہ لیکچر دینا تھا۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس سائیکالوجسٹ نے ایک گلاس میں کچھ پانی بھرا اور اپنا بازو سیدھا کرکے گلاس کو پکڑ کے کھڑا ہوگیا۔ اس نے لوگوں سے پوچھا آپ کے خیال کے مطابق اس گلاس کا وزن کتنا ہوگا؟ کسی نے دو سو گرام بتایا تو کسی نے تین سو گرام۔ اس پروفیسر نے کہا وزن جتنا بھی ہو اصل بات یہ ہے کہ میں اس گلاس کو پکڑ کر کتنی دیر یوں بازو سیدھا کرکے کھڑا ہوسکتا ہوں؟ اگر دو سے تین منٹ کھڑا ہونا ہو تو میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں پر اگر مجھے یہی گلاس دو گھنٹے یا پورا دن پکڑ کر کھڑا ہونا پڑے تو میں ایسا کبھی نہیں کرپاوں گا اور اس ہلکے سے گلاس کا وزن میں زیادہ دیر نہیں اٹھا پاوں گا اور اس طرح میرا بازو بھی شل ہوجائے گا اور شائد گلاس بھی ہاتھ سے گر جائے۔ اس لئے بہتر ہے گلاس کو اتنی دیر ہی اٹھایا جائے جتنی دیر مجھ میں ہمت ہے۔

دوستو! ہم میں سے کون ایسا انسان ہے جو کسی پریشانی میں مبتلا نہیں؟ کون ایسا ہے جو اپنی زندگی پرسکون گزار رہا ہے؟ کون ایسا ہے جس پہ مصیبتیں نہیں آتیں؟ یقیناً اس دنیا میں سانس لینے والا ہر انسان کسی نہ کسی پریشانی میں پھنسا ہوا ہے اور یہ پریشانیاں انسان کو اس وقت بیمار کردیتی ہیں جب ہم ان کو اپنے سر پہ سوار کرلیتے ہیں۔ ہم ان مسائل کے حل کی بجائےان کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ مسلسل پریشان رہنے سے ہماری زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے اور صحت پربھی برے اثرات پڑتے ہیں۔ یہ بالکل اس سائیکالوجسٹ کے اس گلاس کی مانند ہے کہ جتنی دیر گلاس کو پکڑ کر کھڑا رہے گا اس کا وزن زیادہ محسوس ہونے لگے گا اور پھر ایک وقت آئے گا ہم اس اٹھا نہیں پائیں گے۔ اگر ہم اپنی پریشانیوں کا بوجھ لمبے عرصے تک اٹھائے رکھیں گے تو ہماری دماغ مفلوج ہوجائیں گے۔

میں پچھلے چند ماہ سے شدید ذہنی ڈیپریشن کا شکار رہا ہوں۔ ہر وقت دل بجھا بجھا رہتا تھا۔ اپنی کتاب "متولیِ کعبہ" اس ذہنی اذیت میں ہی لکھی پر جیسے لکھی وہ رب جانتا ہے اور میں نومبر مہینے کی شروعات ہی پریشانیوں سے ہوئی مگر میں نے ایک دن یہی سوچا کہ آخر کب تک میں ایسے ہی پریشان رہوں گا؟ آخر کب تک یوں بیٹھا سوگ مناتا رہوں گا کیوں نہ ان معاملات کو حل کیا جائے کیوں کہ اب پریشانیوں کا گلاس اٹھانا مشکل ہوچکا ہے۔ تو عزیزان میں نے ان تمام وجوہات کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا جو میرے لئے مسلسل اذیت کا باعث بن رہی تھیں۔

سب سے اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ انسان کا ضمیر مطمئن ہو انسان ظالمین میں شامل نہ اور شکر ہے خدا کا کہ ضمیر کی عدالت میں با عزت بری ہوں۔ میں نے اپنی حیثیت کے مطابق ہر کوشش کی جو میں کر سکتا تھا مگر کچھ چیزوں کو چھوڑ دینے میں ہماری بقاء ہوتی ہے۔

آپ بھی اگر اپنی زندگی میں پریشانیوں کے گلاس کو لے کر کھڑے ہیں تو اتنی دیر ہی اٹھائیے جتنا آپ آسانی سے اٹھا سکتے ہیں اگر اب ہمت نہیں رہی تو اس گلاس کو اٹھا کر زمین پہ پٹخ دیجئے۔ خدا تعالیٰ اپنے بندے پہ اس کی ہمت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔