1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. بابا جیونا/
  4. کمانڈو کی ڈائری سے انتخاب

کمانڈو کی ڈائری سے انتخاب

قلعہ ڈیر اور ہماری آرمی جس کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ ہمارا دشمن پاکستان آرمی کا نام سن کر لرز اٹھتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں افواج کی جنگی مشقوں کے مقابلے ہوں، ہماری فوج اپنی بہترین جنگی مہارتوں اور جرات کا مظاہرہ کر تی ہے اور ملک و قوم کا نام روشن کرتی ہے۔ دنیا ہماری فورسز کی بہترین ٹریننگ جذبہ ء قربانی سے سرشار جوانوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتی لیکن ہماری سابقہ حکومتوں نے پاکستان کی افواج کو اندرونی معاملات میں الجھا ئے رکھا۔ ہماری افواج اندرونی دہشت گردی اداروں کی کرپشن سیاسی معاملات کو سلجھانے میں سینہ سپر رہی۔ افواج پاکستان ہماری پولیس آج بھی دہشت گردوں کے مذموم مقاصد ناکام کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
آج میں گراونڈ میں صرف اس لیے بیٹھ گیا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر میری صاحب جی مجھے ضرور میسج کریں گی اور اگر میں روز کی طرح باقی دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف ہو گیا تو صاحب جی کہیں میرے میسج کا انتظار ہی نہ کرتی رہیں۔ جیسا میں سوچ رہا تھا بالکل ویسا ہی ہوا نماز سے فارغ ہوتے ہی صاحب جی نے مجھے میسج کیا بابا جی میں نے نماز پڑھ لی اب آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ان کا دوسرا میسج آ گیا بابا جی آپ رات کتنے بجے سو گئے تھے؟ میں تو بہت تھکی ہوئی تھی اس لیے جلدی ہی لڑھک گئی تھی۔ لڑھک گئی کا لفظ اتنا دلچسپ تھا کہ میری ہنسی ہی نہیں تھم رہی تھی۔ میں اس طر ح کے کسی لفظ کی ان سے توقع ہی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن انھیں ہر بات میں مزاح کا عنصر ڈھونڈنا یا ڈالنا آتا تھا۔ وہ اکژ مجھے بہت ہنسایا کرتی تھیں۔
میں پاگلوں کی طرح موبائل کی سکرین پہ سر جھکائے ہنس رہا تھا۔ میں نے ہنستے ہنستے ان کے میسج کا جواب دیا میں نے کہا صاحب جی میں بھی رات بہت جلدی سو گیا تھا حالانکہ میں تو رات ناجانے کب سویا تھا میں تو دیر تک جاگتا رہا تھا۔ میں تو صاحب جی سے خیالوں میں گم ہوکر پتہ نہیں صاحب جی سے کیا کیا باتیں کرتا رہا تھا۔ مجھے تو رات گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا تھا۔ اچھا بابا جی گزری رات کے لیے معذرت لیکن آئندہ ہم کوشش کریں گے کہ رات دیر تک آپ کا دماغ کھایا جائے مطلب صاحب جی نے وعدہ کیا کہ آج کے بعد ہم رات دیر تک باتیں کیا کریں گے۔ جس جگہ میں بیٹھا تھا پاس ہی پیپل کے درخت پہ بیٹھی کوئل صبح کے تروتازہ اور خوبصورت نظارے کو اپنی بہت پیاری آواز سے چار چاند لگارہی تھی وقفے وقفے سے بولتی کوئل قدرت کے خوبصورت ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔
بابا جی صبح کی نماز کے بعد آپ کی روز کی روٹین کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا صاحب جی ہم روز صبح نماز کے بعد کچھ دیر گراونڈ میں وقت گزارتے ہیں مختلف ورزشیں کرتے ہیں ر گبی کھیلتے ہیں جم جاتے ہیں پھر نہا کے ناشتہ کرتے ہیں۔ جن کی ڈیوٹیز ہوتی ہیں وہ ڈیوٹی چلے جاتے ہیں باقی لوگ کسی بھی ایمرجنسی ےا ناگہانی صورتحال کے لیے سٹینڈ ٹو رہتے ہیں۔ لیکن باباجی آج آپ نہ تو جم گئے ہیں نہ آپ نے رگبی کھیلی ہے نہ آپ نے ایکسرسائز کی ہے آپ بتائیں گے بھلا کیوں؟ میرے پاس ان کی کیوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے بس اتنا کہا بس ایسے ہی۔ تو وہ کہنے لگیں بابا جی ہمیں پتہ ہے آپ نے آج ایسا کیوں کیا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ مجھے لگا وہ یہ کہہ کر میری مشکل آسان کر دیں گی کہ آپ نے میرے ساتھ بات کرنے کے لیے آج سارے ایونٹ مس کر دیے ناں؟ لیکن ان کے لیے بھی حقیقت کا سامنا کرنا اتنا آسان نہ تھا انھوں نے یہ کہہ کر مجھے ٹال دیا کہ ابھی نہیں، وقت آنے پہ وہ بتائیں گی کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ اچھا آج تو آپ کی ڈیوٹی ہمارے ساتھ ہی ہے ناں؟ میں نے کہا جی آج میں آپ کے ساتھ ہی ہوں۔ ٹھیک ہے آپ نہا کے تیار ہو جائیں میں بھی ذرا کمرے میں جاتی ہوں تھوڑا سامان پیک کرنا ہے پھر ملتے ہیں۔ میں نے کہا جی صاحب جی۔
میں کچھ دیر وہیں گراونڈ میں بیٹھا رہا ان کے پرانے میسجز پڑھتا رہا۔ پتہ نہیں میں ان کے میسجز میں کیا ڈھونڈ رہا تھا۔ خیر کچھ دیر وہیں گزارنے کے بعد میں اپنے کمر ے میں آگیا برش لیا میڈی کیم لگائی اور واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ جب میں برش کر رہا تھا تو بار بار شیشے میں خود کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت مجھے اپنے آپ پہ پیار آرہا تھا۔ خیر میں نہایا شیو کی صاف ستھر ا یونیفارم پہنا اور میس پہ چلا گیا میس پہ پہنچا تو ہمیشہ کی طرح چنے کی دال اور تنور کی روٹی میرا انتظار کر رہی تھی۔ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ فورسز کی میس پہ چنے اور دالیں ہی کیوں زیادہ پکائی جاتی ہیں؟ کیا واقعی انگریز کوئی ایسا قانون بنا گیا ہے کہ فورسز کی میس پہ چنے اور دالیں ہی پکا کریں گی؟ تو میں بتانا چاہوں گا کہ ایسی کوئی بات نہیں یہ کوئی انگریز کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ یہ ہماری فورسز کی میس انتظامیہ کی نااہلی اور کاہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے دال اور چنے پکانے اور سرو کرنے ذرا آسان ہوتے ہیں اس لیے دال چنے کو سرکاری ڈش کہا جاتا ہے۔
باباجی ہمارا ناشتہ آگیا ہے چائے بریڈ انڈ ا ہلکا پھلکا ناشتہ ہے۔ میں جب گھر ہوتی ہوں تو ہمیشہ ناشتے میں انڈا پراٹھا ہی لیتی ہوں مجھے انڈا پراٹھا بہت پسند ہے۔ آپ نے ناشتہ کر لیا؟ کیا تھا آپ کے ناشتے میں؟صاحب جی ناشتہ کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ میرے ساتھ میسجز پہ بات بھی کر رہی تھیں۔ میں نے بتایا صاحب جی چنے کی دال اور تنور کی گرم گرم روٹی۔ بابا جی آپ ناشتے میں دہی نہیں لیتے اور چائے بھی نہیں؟ میں نے بتایا صاحب جی ہمارا ناشتہ ذرا مختلف ہوتا ہے ہم چائے اور دہی کینٹین سے لیتے ہیں ہماری میس پہ بس سالن روٹی ہوتی ہے۔ آپکی میس بھی عجیب ہے۔ کون نمونہ ہے آپ کا میس انچارج؟ میں انکی بات کو ٹال گیا کیونکہ نئی نئی آفیسربنی تھیں میں نے سوچا کہیں میس انچارج کو فون کرکے اس کی کلاس ہی نہ لے لیں میں نے بات بدل دی۔ میں نے پوچھا آپ نے آج دن کے لیے کیا کیا سامان پیک کیا ہے؟ وہ بتانے لگیں چپس نمکو ایک دو پیکٹ بسکٹ پانی کی بوتل تھوڑے سے ٹشو اس کے علاوہ اور کسی چیز کی مجھے ضرورت ہو سکتی ہے تو پلیز آپ بتا دیں۔ ان کے پلیز لفظ میں کتنی اپنائیت تھی۔ پہلی بار صاحب جی نے مجھے اس طرح مخاطب کیا تھا۔ میں نے کہا نہیں کچھ خاص نہیں بس اگر آپ لوگ قلعہ ڈیراور جاتے ہیں تو وہاں آپ کو ذرا پانی کی زیادہ ضرورت ہو گی کیونکہ وہاں گرمی ذیادہ ہوتی ہے۔ ہاں ٹھیک اس کے علاوہ اور بھی کچھ بتائیں قلعہ ڈیراور کے متعلق۔
صدیوں پہلے یہ علاقہ ایک سرسبزو شاداب وادی پہ مشتمل تھا اسے تاریخی دریائے ہاکڑہ سیراب کرتا تھا اسی نسبت سے اسے وادیء ہاکڑہ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ سرسبزوشاداب وا دی صحر ا میں تبدیل ہو گئی دریائے ہاکڑہ کہیں ریت کے نیچے غفلت کی نیند سو گیا جسے پھر دوبارہ کبھی نہ جگایا جا سکا۔ سرسبزوشاداب وادی کی جگہ وسیع و عریض صحراﺅں نے لے لی۔ آج اس صحرا میں ماضی کی کئی شکستہ یادگاریں ہیں جو اس علاقے کی عظمت رفتہ کی یاد گار ہیں۔ ان میں قلعہ ڈیراور اپنی پختگی وسعت شان وشوکت اور تاریخی اہمیت کے اعتبار سے لازوال اہمیت کا حامل ہے۔ قدیم وادیءہاکڑہ اور موجودہ صحرائے چولستان کی عظیم ماضی کی شاندار اور بے مثال یادگار یہ قلعہ اپنے اندر بے شمار داستانیں لیے مہر بلب ہے۔ اسکی بلند و بالا فصیلوں نے وقت کے کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ جنگ وجدل کے کئی منظر فتح و شکست کے کئی واقعات اس کے سینے میں دفن ہیں۔ آج سے چھ ہزار سال پہلے ملوحہ یعنی ملتان اور ہڑپہ سے چلنے والے تہذیبی قافلے جو تلمور یعنی سندھ اور مکران سے ہوتے ہوئے مصر عراق کے عظیم تہذیبی مراکز تک جاتے تھے وہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے وسط میں واقع قلعہ ڈیراور کی بلندو بالا فصیلوں کے سائے میں ضرور پڑاﺅ ڈالتے رہے ہوں گے۔ آج یہ عظیم قلعہ قصہء ماضی بن چکا ہے۔ کب اس کی بنیا دیں رکھی گئیں کون اس کے معمار تھے کن حکمرانوں کے پرچم سب سے پہلے اس قلعہ کی پیشانی پہ لہرائے اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ہا ں ایک تاریخی روایت اس کے بارے میں معمولی سا اشارہ دیتی ہے۔ صدیوں پہلے اس علاقے کے حکمران راجہ چچا جو ذات کا بھٹی تھا کے بھانجے نے رہائش کے لیے اپنے ماموں سے زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کیا بعد میں راجہ کو معلوم ہوا کہ اس کا بھانجا یہاں قلعہ تعمیر کر رہا ہے اور اس کے ارادے صحیح نہیں ہیں تو راجہ نے طاقت کے بل بوتے پر قلعے کی تعمیر رکوادی بعد میں راجہ کی بہن نے اپنے بھائی کو خط لکھا کہ تم بھٹی خاندان سے ہو اور میرا بیٹا بھاٹیا خاندان سے تعلق رکھتا ہے دونوں قبیلے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تم اپنے بھانجے کو کورٹ یعنی قلعہ تعمیر کرنے د و۔ یہ قلعہ زیادہ تر راجستان کے حکمرانوں کے قبضہ میں رہا بعد میں یہ بہاولپور کے عباسی خاندان کے قبضے میں آگیا۔ بہاولپور کے عباسی خاندان کا تعلق بغداد کے عباسی خانوادے سے تھا انھیں کے دور میں قلعہ ڈیراور کو پختہ کیا گیا۔ اور اوچ شریف سے قلعہ ڈیراور تک پختہ اینٹیں انسانی زنجیر سے قلعے تک پہنچائی گئیں۔ قلعہ ڈیراور اپنے محل وقوع کے اعتبار سے عسکری اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی بلندوبالا پختہ فصیل چالیس برجوں پہ مشتمل ہے اور سابق ریاست بہاولپور کے تمام بڑے شہروں سے یہ قلعہ یکساں فاصلے پر واقع ہے۔ قلعے کے چاروں طرف لق ودق صحرا کا ہونا دور دور تک پانی کی عدم دستیابی قلعے کی دیواروں کی تیس میٹر اونچائی اسے جنگی نقطء نظر سے محفوظ بناتی ہے۔ قلعے کے سامنے مرکزی دروازے کے قریب ایک وسیع پانی کا تالاب تھا جس میں بارش کا پانی دور دور سے رس کر جمع ہوتا رہتا تھا اس تالاب کے بالمقابل قلعے کے اندر ایک اور تالاب تھا کسی بیرونی حملہ کی صورت میں قلعے کی فصیل میں نسب لوہے کا دروازہ اٹھا لیا جاتا تھا ا ور باہر کے تالاب کا پانی اندر کے تالاب میں منتقل ہو جاتا تھا۔ جس سے حملہ آور فوج پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے محاصرہ ختم کر دینے پہ مجبور ہو جاتی تھی۔ باہر سے قلعے کی فصیلوں کی بلندی اور اندر سے سطح کی کم بلندی یہ ثابت کرتی ہے کہ اس قلعے کے اندر زیرزمین کافی تعمیرات پوشیدہ ہیں۔ اس قلعہ کی پوری فصیل محرابی دمدموں سے بنی ہوئی ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر دمدمے کا ڈیزاین بظاہر ایک جیسا لگتا ہے مگر پختہ اینٹوں سے تعمیر ہر ایک کا طرز تعمیر اور ڈیزائن دوسرے سے مختلف ہے جو اس کے معماروں کے حسن ذوق کی علامت ہے قلعے کے اندر شاہی بیگمات اور اہل خانہ کے قیام کے لیے خوبصورت طرز تعمیر اور انتہائی خوبصورت فرش والا شاہی حصہ ہے اس عمارت کی چھتیں اور فرش لکڑی کے کام والے خوبصورت دروازے آج بھی یہ احساس دلاتے ہیں کہ کبھی عمارت کا یہ حصہ انتہائی دیدہ زیب ہو ا کرتا تھا۔ قلعے کے اندر فوجی بیرکیں توشہ خانہ خدمت گاروں کی رہائش گاہیں ان کے درمیان ایک وسیع میدان جس میں دو توپیں موجود ہےں میدان میں ادھر ادھر پتھر اور لوہے کے گولے
بکھرے پڑے ہیں۔ اس میدان کے مغربی حصے کی طرف امیر آف بہا ولپور کی گرمائی رہائش کے لیے زیرزمین کمرے بنے ہوئے ہیں سطح زمین پر بنے ہوئے ایک چھوٹے سے کمرے میں سے انتہائی نیچے سیڑھیاں اور اس کے ساتھ لوہے کی ریل کی پٹٹری نیچے جارہی ہے کمرے میں ایک ٹھیلہ موجود ہے جو لوہے کی زنجیروں کے ذریعے اس پٹٹری پر کئی سو فٹ نیچے زیرزمین جاتا تھا اور اس کے ذریعے امیر آف بہاولپور انتہائی نیچے والے کمروں میں گرمیوں کے موسم میں آرام اور قیام فرماتے وہاں سے اوپر تک خصوصی ہوا دان اس طر ح بنائے گئے تھے کہ اوپر کی ہوا انتہائی نیچے تک جا کر دوسر ے راستے سے پھر اوپر آتی تھی کہا جاتا ہے ہو ادانوں کے منفرد استعمال سے زیرزمین کمروں کا درجہ حرارت حیرت انگیز حد تک کم ہو جاتا تھا۔ میڈم جی نے کہا بابا جی آپ تو کافی کچھ جانتے ہیں قلعہ ڈیراور کے بارے میں مجھے لگتا ہے اب وہاں جانا یا نہ جانا ایک برابر ہے۔ تو میں ہنسنے لگا میں نے جواب لکھا صاحب جی آپ وہاں جائیں گی تو آپ کو اور بھی بہت کچھ دیکھنے اور جاننے کو ملے گا جیسے وہاں کی سنگ مر مر کی بنی مسجد نوابوں کا قبرستان ایک کافی لمبی قبر ہے جو کسی عام انسان کی قبر سے کہیں زیادہ بڑی ہے اسے کسی صحابی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ صحرا میں چہل قدمی کرتے اونٹ گائے بھیڑ بکریوں کو ہانکتے ہوئے چرواہے قلعے کے آس پاس قدیم درختوں پہ بولتی فاختائیں بہت دلکش منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں صاحب جی آپ وہاں ضرور جائیں۔ صاحب جی کا میسج آیا جی بابا جی ہم وہاں جائیں گے۔ میں ناشتہ کر چکا تو جلدی جلدی اٹھا اور اپنے ایلیٹ فورس کے آفس پہنچا آج ناشتے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا تھا جس کے گزر جانے کا احساس بھی نہ ہوا کیونکہ ناشتے کے دوران میرے اور صاحب جی کے درمیان ایک لمبی میسجنگ ہوئی تھی۔ میں اپنے آفس پہنچا تو میری حالت دیدنی تھی کیونکہ میری ڈیوٹی تبدیل کر دی گئی تھی میں لیٹ ہوگیا تھا اور صاحب جی کے ساتھ جانے کے لیے ٹیمیں روانہ ہوچکی تھیں۔

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔