1. ہوم
  2. کالمز
  3. حیدر جاوید سید
  4. گولڈ سمتھ ہائوس پر مظاہرہ اور توشہ خانہ کا رولہ

گولڈ سمتھ ہائوس پر مظاہرہ اور توشہ خانہ کا رولہ

فقیر راحموں کا اصرار ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی کردار کشی کی حالیہ مہم کے ساتھ لندن میں جمائما خان کے گھر کے باہر (ن) لیگیوں کے احتجاجی مظاہرہ پر ضرور لکھا جائے۔ چونسٹھ برسوں کے ہمراز و ہمزاد کے حکم کی تعمیل ضروری ہے۔ ویسے میں نے اسے ایک بات بتائی تھی کہ نئی حکومت کے آتے ہی ڈالر سستا ہوا جس کی وجہ سے تمہارے سگریٹ کی قیمت 15روپے کم ہوئی لیکن اسے سمجھ میں آئے بات تو بات ہے۔

ان سطور میں گزشتہ روز بھی عرض کیا تھا کہ لندن میں جمائما خان معاف کیجئے گا جمائما گولڈ سمتھ کے گھر کے باہر نونیوں کا جوابی مظاہرہ اچھی بات نہیں، ذاتی طور پر میں کسی بھی سیاسی مخالف کے گھر کے باہر طوفان بدتمیزی برپا کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔

لندن میں نوازشریف کی قیام گاہ کے باہر مظاہرے کرنے، آوازیں کسنے اور گاہے جھگڑے پر اتر آنے والے انصافیوں کا موقف ہے کہ یہ گھر چوری کی دولت سے خریدے گئے ہیں چوری پاکستان میں ہوئی ہم پاکستانی ہیں ہمیں احتجاج کا قانونی و اخلاقی حق حاصل ہے۔

اب (ن) لیگ والے کہتے ہیں جمائما گولڈ سمتھ گو عمران خان کی سابقہ اہلیہ ہیں لیکن انہوں نے عمران کے بہت سارے گھٹالوں کی پردہ پوشی کے لئے بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کی عمران خان کے تینوں بچے ان کے گھر میں ہی پرورش پارہے ہیں۔(ن) لیگ کی پچھلی حکومت کے دور میں وہ مسلسل لیگی حکومت اور نوازشریف کے خلاف سوشل میڈیا پر سرگرم عمل رہیں اور اپنے سابق شوہر کے حق میں مہم چلاتی رہیں۔

ابھی چند دن قبل جمائما کے بھائی نے جوکہ برطانوی کابینہ کا رکن ہے، عمران خان کے حق میں بیان دیا یہ بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھا۔یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے کابینہ کے ایک رکن کے بیان سے حکومتی طورپر لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت پاکستانی کے داخلی سیاسی نظام کا احترام کرتی ہے مسٹر سمتھ کا بیان ان کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔

برطانوی حکومت کی رائے ہرگز نہیں،(ن) لیگ ثبوت کے طور پر سوشل میڈیا پر جمائما گولڈ سمتھ کے چند بیانات پیش کرتی ان میں وہ ٹیویٹس بھی شامل ہیں جو نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے اور پھر لیگی حکومت کی مدت پوری ہونے پر انہوں نے کیں۔

مکرر عرض ہے جمائما گولڈ سمتھ عمران خان کی سابق اہلیہ ہیں۔ (ن) لیگ کے کارکنوں کو بات سمجھ میں آئے تو اچھی بات ہے ورنہ لگے رہیں۔جس طرح جمائما گولڈ سمتھ کا عمران کے حق میں سوشل میڈیا پر ٹیوٹس کرنا غلط ہے اسی طرح ان کے گھر کے باہر مظاہرے بھی۔ آگ دونوں طرف ہے برابر لگی ہوئی۔ لگی رہے سانوں کی، "ہیں جی"۔

ان دنوں دوسرا اہم معاملہ سابق وزیراعظم عمران خان کا توشہ خانہ سے ایک یا کچھ قیمتی اشیاء خرید کر انہیں مارکیٹ میں فروخت کرنے کا بنا ہوا ہے۔سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد چودھری کہتے ہیں "توشہ خان سے قانون کے مطابق گھڑی خریدی گئی اب مالک کی مرضی وہ خریدی ہوئی چیز اپنے پاس رکھے یا فروخت کردے اس سے کسی کا کوئی لینا دینا نہیں "۔

فواد چودھری درست کہتے ہوں گے لیکن یہاں ایک سوال ہے وہ یہ کہ تونشہ خانہ یا یوں کہہ لیجئے کہ عمران خان کو بطور وزیراعظم بیرونی دنیا سے کیا تحائف ملے اس معاملے پر اسلام آباد کے ایک صحافی رانا ابرار خالد نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس دائر کیا کہ"میں نے معلومات کی آگاہی کے قانون کے تحت متعلقہ حکام کو درخواست دی کہ مجھے بتایا جائے کہ وزیراعظم عمران خان کو اب تک بیرونی دوروں میں کتنے تحائف ملے۔ ان کی مالیت کیا ہے، کیا یہ تحائف توشہ خانہ میں موجود ہیں یا فروخت کردیئے گئے، فروخت ہوئے تو خریدار ایک ہی تھا یا نیلامی عمل میں لائی گئی؟"

یہ کیس ابھی تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود ہے۔ وفاقی حکومت کا اس پر جواب تھا تحائف کی تفصیل بتانے سے دوست ملکوں سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اس لئے حکومت یہ معلومات نہیں دے گی کیونکہ حساس معاملہ ہے۔عدالت نے حکومت کے موقف سے اتفاق نہ کیا تو پھر وہی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ کیس کے التواء، صحافی کو دھمکانے ڈرانے اور مسائل پید کرنے والے۔

آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ توشہ خانہ سے ایک گاڑی خریدنے (ادائیگی کی دستاویزات عدالت میں پیش کی جاچکیں) پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، میاں نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زردایر کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس دائر ہے۔ اس ریفرنس کے مطابق گیلانی نے بطور وزیراعظم سابق وزیراعظم نوازشریف کو اپنے دور میں تحفہ میں ملی (سعودی عرب نے مرسیڈیز گاڑی تحفہ میں دی تھی) گاڑی خریدنے کی اجازت دی۔

گاڑی خریدی گئی نوازشریف گاڑی لے گئے۔ ریفرنس کے مطابق اس گاڑی کی قیمت سرکاری خزانہ میں نوازشریف کی بجائے آصف زرداری جوکہ اس وقت صدر مملکت تھے، کے ایک دوست نے جمع کروائی۔مسلم لیگ (ن) کے حامی میڈیا نے سید یوسف رضا گیلانی پر 2010ء میں الزام لگایا تھاکہ طیب اردگان کی اہلیہ نے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے اپنا ہار اتار کر فنڈ میں جمع کروایا۔ وہ ہار گیلانی نے اپنی اہلیہ کو دے دیا۔

یہ ہار توشہ خانہ کی ملکیت نہیں تھا بلکہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دیا گیا۔ ہار باقاعدہ خریدا گیا رقم سرکاری خزانہ میں جمع ہوئی لیکن (ن) لیگ کے حامی میڈیا اور اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے گیلانی اور ان کی اہلیہ کو رج کے ذلیل کیا۔یہاں تک کہ ہار کے حوالے سے یوسف رضا گیلانی کے وضاحتی بیان کو توڑ موڑ کر شائع کیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی وہ ہار اور خریداری کی رسیدیں لے کر اسلام آباد میں دفتر دفتر گھومے کہ ہار اور رسیدیں دونوں لے لو میری جان چھوڑو۔

تصویر کے صرف ایک رخ پر کردار کشی کی شوقین نسل بھی پچھلے ساڑھے تین برسوں سے گیلانی پر یہی الزام لگاتی آرہی ہے اور عام زندگی کے علاوہ سوشل میڈیا پر دھڑلے سے جھوٹ کاشت کیا گیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے جب توشہ خانہ سے 16کروڑ کی اشیاء دو کروڑ میں لے کر 18کروڑ میں فروخت کرنے کا معاملہ سامنے آیا تو نہ صرف بھونڈے انداز میں کچرے کے ڈھیر کا رزق ہوئے جھوٹے الزامات کو پھر اچھالا جانے لگا بلکہ بھانت بھانت کے دعوے بھی سامنے آئے۔

ان دعوئوں اور الزامات پر بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ فواد چودھری جوکہ سابق حکومت میں وزیر اطلاعات اور آخری دنوں میں وزیر قانون بھی رہے اب تحریک انصاف کے ترجمان ہیں، دوٹوک انداز میں گھڑی تحفہ میں ملنے، خریدنے اور پھر فروخت کرنے کے حوالے سے اپنی جماعت کا موقف دے چکے۔بات ان کی سوفیصد درست ہے کہ "گھڑی خریدنے والا اسے اپنے پاس رکھے یا بیچ دے کسی کو کیا تکلیف ہے"۔

یہاں سادہ سا سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ہی یہ قانون بنایا تھا کہ توشہ خانہ میں موجود تحفہ کی جو مارکیٹ ویلیو (بازار میں قیمت) ہوگی اس کا نصف دے کر وہ شخص اس چیز کو خریدنے کا حق رکھتا ہے جسے وہ تحفہ میں ملی ہو۔اب تین اشیاء ایک گھڑی، ایک انگوٹھی اور سونے کی بنی ہوئی ایک کلاشنکوف، ان تین چیزوں کو جناب عمران خان نے لگ بھگ دو کروڑ روپے میں خریدا اور کہا جارہا ہے کہ 16یا 18کروڑ میں فروخت کردیا۔

مارکیٹ میں 16یا 18کروڑ میں فروخت ہونے والی تین اشیاء کی مارکیٹ قیمت کیسے نکالی گئی؟ اس مارکیٹ نرخ کا کوئی ریکارڈ توشہ خانہ میں موجود ہے کیا یہ قیمت قانون کے مطابق طے کرائی گئی؟ایک ضمنی سوال بھی ہے وہ یہ کہ خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد ایک سے زائد بار یہ بات ٹی انٹرویو اور تقاریر میں کہا کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ دو افراد کے کنبہ کا 2لاکھ روپے تنخواہ سے گزارا نہیں ہوتا۔ دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے گزراوقات مشکل تھی تو یہ دو یا اڑھائی کروڑ روپے تحائف خریدنے کے لئے کہاں سے آئے۔

تحائف فروخت کرنے سے جو رقم حاصل ہوئی وہ مالیاتی گوشوارے میں ظاہر کی گئی۔ کیا اس پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا؟ معاف کیجئے گا یہ سوال کسی شخص کی کردار کشی میں نہیں آتے اس لئے جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ایک شخص جو بائیس پچیس سال اقربا پروری، لوٹ مار، چوریوں اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرتا رہا ہو اس نے یہ سب کیوں کیا؟ یہ اصل سوال ہے۔

محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ عمران خان کی کردار کشی ہورہی ہے سب جھوٹ ہے ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکی سازش مردہ باد۔ یہ ساری جذباتی باتیں ہیں، سوال اٹھ رہے ہیں، دستاویزات کے ساتھ جواب عوام کے سامنے رکھ دیجئے، قصہ ختم۔