1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. ہفتہء کتب بینی اور دو وضاحتیں

ہفتہء کتب بینی اور دو وضاحتیں

فقیر راحموں کہتا ہے، شاہ جی جس طرح تمہارا وکیل بابو دوست ساجد رضا تھہیم سنگین ملکی حالات کو نظرانداز کرکے ہر سال سیروسیاحت کے لئے مغرب جاپہنچتا ہے بالکل اسی طرح تم بھی سیاست کے جھمیلوں سے جان چھڑاکر ان دنوں ہفتہ کتب بینی منارہے ہو۔

کسی حد تک بات درست ہے۔ سچ پوچھیں تو سیاسی اختلافات کو جس طرح نفرتوں اوئے توئے اور گالیوں کے رزق سے پالا جارہا ہے اچھے بھلے دوست اور عزیز سیاسی پسندوناپسند کی بنیاد پر قربتیں اور دوریاں بڑھارہے ہیں۔ اس نگوڑی سیاست پر لکھنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔

کچھ دیر قبل سوشل میڈیا پر ایک ڈبہ برانڈ دوغلے رائٹر خلیل الرحمن قمر کا وائرل ہوا کلپ سنا۔ موصوف کہہ رہے تھے ملک میں اس وقت غیرت اور بے غیرتی کے درمیان مقابلہ ہے۔ ان کے خیال میں غیرت مندوں کا شہسوار عمران خان ہے اور اس کے مخالف و ناقد مجسم بے غیرتی۔

یہ صاحب ڈرامہ نویس ہیں۔ بہت سارے لوگ انہیں مردوں کا عمیرہ احمد اور نمرہ احمد بھی کہتے ہیں۔ یہ لوگوں کا خیال ہے ورنہ فقیر راحموں کے بقول موصوف جدید وہی وہانوی ہیں بس ذرا اسلامی ٹچ دے کر نسیم حجازی بننے کی کوشش میں جُتے رہتے ہیں۔

ان کے ویڈیو والے ارشاد پر ایک پورا کالم لکھا جاسکتا ہے خصوصاً غیرت کے شہسوار اور خود ان کی "ذاتی غیرت" کی زندہ "نشانیوں" پر لیکن فی الوقت ہم محترمہ ماہ پارہ صفدر کی تصنیف "میرا زمانہ میری کہانی" پر بات کرلیتے ہیں۔

سیدہ ماہ پارہ زیدی اب ماہ پارہ صفدر ہیں۔ سابق براڈ کاسٹر اور بے مثال شاعر صفدر ہمدانی کی شریک سفر ان کی "خودنوشت" مجھے آج دن میں ایک دوست کی مہربانی سے موصول ہوئی۔ میرے دوست نے مجھے دو کتابیں بھجوائیں ایک ماہ پارہ صفدر کی تصنیف اور دوسری کتاب مشہور زمانہ ناول "گارڈ فادر" کا اردو ترجمہ ہے جو رئوف کلاسرا نے کیا۔

میری لائبریری میں فکشن ہائوس سے شائع ہوا رئوف کلاسرا کا ترجمہ موجود ہے۔ اتفاق سے اسے تین بار پڑھ بھی چکا ہوں۔ نئی اشاعت کے لئے مہربان دوست سے فرمائش کی وجہ یہ رہی ہے کہ کچھ اضافوں کے ساتھ گارڈ فادر کی نئی اشاعت میں ناول نگار ماریو پوزو کے صاحبزادے انتھونی پوزو اور اس ناول پر بنائی گئی فلم "دی گارڈ فادر" کے ہدایتکار فرانسس فورڈ کوپولا کی تحریریں بھی شامل ہیں۔

ان دو اضافی تحریروں کی وجہ سے ہی ناول منگوانا پڑا۔ ناول کے معاملے میں، میں اپنی روح تک شوکت صدیقی کا مداح ہوں۔ ان کا ناول "جانگلوس" سات آٹھ بار پڑھ چکا اب بھی میں سوچ رہا ہوں کہ امسال عیدالفطر کے دو دن جب اخبارات کی چھٹی ہوگی میں ایک بار پھر "جانگلوس" پڑھوں گا۔

سیدہ ماہ پارہ صفدر کی تصنیف "میرا زمانہ میری کہانی" سپہر کے بعد پڑھنا شروع کی۔ ہمارے محبوب مکرم اور گزشتہ صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی کے نامور ترقی پسند طالب علم رہنما ادیب دانشور اور صحافی سید علی جعفر زیدی نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے۔ یہ پیش لفظ اور کتاب میں موجود دو غلطیاں فوری کالم لکھنے کی وجہ بن گئے۔

سیدی علی جعفر زیدی صاحب نے یقیناً کتاب کا مسودہ پڑھ کر ہی اپنی تحریری رائے لکھی ہوگی۔ تاریخ عالم، تاریخ ہندو پاک اور پھر پاکستانی سیاست کی تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے زیدی صاحب کیسے چوک گئے کہ ان کی نگاہ اس غلطی پر نہیں پڑی۔ پچھلے تین گھنٹوں کے دوران "میرا زمانہ میری کہانی" کے 122صفحات پڑھ پایا ہوں۔ تحریر کی بُنت، ہجرتوں اور مصائب کے ساتھ نصف صدی پہلے کے پاکستان پر اگلے کسی کالم میں بات کریں گے فی الوقت یہ تصحیح ضروری ہے کہ 1973ء کا دستور متفقہ دستور نہیں تھا۔

بہاولپور صوبہ محاذ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والے میجر عبدالنبی کانجو، جے یو پی کے ٹکٹ پر ضلع رحیم یار خان سے ایم این اے منتخب ہوئے مخدوم نور محمد ہاشمی اور بلوچستان سے نیپ کے نواب خیر بخش مری نے دستخط نہیں کئے تھے۔

1973ء کے دستور پر دستخط نہ کرنے والے ان تین ارکان کے علاوہ بھی شاید ایک آدھ نام اور ہے یا ہو لیکن یہ تین صاحبان بہرحال دستخط کنندگان میں شامل نہیں تھے اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ 1973ء کا دستور متفقہ دستور تھا۔ مجھ ایسے قلم مزدور بھی طویل عرصہ تک اس غلط العام بات کو آگے بڑھاتے رہے پھر دوستوں نے ہماری تصحیح کردی۔

اس موضع پر دو مرحوم بزرگ سیاستدانوں میر غوث بخش بزنجو اور رسول بخش پلیجو سے بھی بات ہوئی ان دونوں بزرگوں کے انٹرویو میں نے ہفتہ روزہ "رضاکار" لاہور اور ماہنامہ "زنجیر" لاہور میں شائع کئے تھے۔

سیدہ ماہ پارہ صفدر نے کتاب کے صفحہ 122پر ڈاکٹر مبشر حسن کے حوالے سے لکھا کہ "ان کاکہنا تھا کہ بھٹو صاحب نے قادیانی مسئلہ پر مذہبی شدت پسندوں کے سامنے جو گھٹنے ٹیکے اس میں سعودی عرب کی مشاورت شامل تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کی پاکستانی سیاست اور نظام میں مشاورت و حاکممانہ احکامات والی حیثیت ستمبر 1976ء کے بعد شروع ہوئی۔

1974ء میں یقیناً پاکستان کے سعودی عرب سے اچھے تعلقات تھے بلکہ بہت اچھے لیکن ابھی دوستی آقا و نیاز مندی میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو جب جولائی سے ستمبر 1976ء کے درمیان امریکی سفیر کی بھٹو صاحب سے چند ملاقاتوں میں معاملات نہ بن پائے تو پھر امریکی کیمپ سے سعودی عرب کو آگے بڑھایا گیا۔ اس وقت کے اخبارات اٹھاکر بغور مطالعہ کیجئے سعودی سفیر ریاض الخطیب سفیر کم اور پاکستان قومی اتحاد "گاڈر فادر" اور وائسرائے زیادہ لگتے تھے۔

بھٹو صاحب کی معزولی تک پاکستان کی داخلی سیاست نظام اور دیگر امور میں مسلم ملکوں کی مداخلت کا رواج نہیں پڑا تھا۔ حالانکہ بھٹو دور میں ہی رجعت پسند جریدوں نے یہ ڈھمکیری چھوڑی تھی کہ پاکستانی بلوچستان میں سے پٹرولیم نکلا جاسکتا تھا مگر بھٹو نے ایران سے کہا تم اپنے علاقے سے پٹرولیم نکال لو ایرانی پٹرولیم کے کنویں نیچے اور پاکستان میں پٹرولیم کے ذخائر بلند جگہ پر تھے جب ایران نے تیل نکالا تو پاکستانی علاقے میں زیرزمین سارا تیل ایرانی کنوئوں میں چلا گیا۔

واہ سبحان اللہ کیا سائنسی تھیوری تھی۔

پاکستان میں قادیانی مسئلہ پر تضادات قیام پاکستان سے بھی پرانے تھے۔ تقسیم سے قبل کی مجلس احرار الاسلام کی تو ساری سیاست اس مسئلہ کے گرد گھومتی تھی۔ البتہ یہ درست بات نہیں کہ اس مسئلہ پر ہونے والی آئینی ترمیم میں سعودی عرب کی کسی سطح پر مشاورت شامل تھی۔ ایسا ہوتا تو پھر اس معاملے پر سعودی عرب یا دوسری کسی مسلم ریاست نے آج تک قانون سازی کیوں نہ کی۔

ڈاکٹر مبشر حسن ہماری نسل کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے مگر بدقسمتی سے انہوں نے جن حالات میں پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کی اور جس طرح نئی سیاسی فہم کی ترویج کی کوشش بھی اس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے بھی بھٹو کے چند دوسرے پرانے عاشقوں کی طرح "جی کاساڑ" نکالنے کے لئے ایک غلط بات بھٹو سے منسوب کردی۔

قادیانی مسئلہ اس حوالے سے پیدا شدہ صورتحال اور آئینی ترمیم اس پر محض کسی ایک شخص کی رائے پر اعتبار مشکل ہے بلکہ اس وقت کے حالات اور دیگر معاملات کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ اس موضوع پر اخباری کالم میں تفصیل سے بات اور تجزیہ ممکن نہیں۔

طالب علم نے اپنی زیرتحریر سوانح حیات میں اس موضوع پر پورا ایک باب باندھا ہے۔ اشاعت کے بعد گو سوفیصد نہ سہی پھر بھی ساٹھ ستر فیصد ان باتوں کا رد ضرور ہوجائے گا جو اس معاملے کو لے کر بھٹو صاحب بارے کی جاتی ہیں۔ اخباری کالم کے مقابلہ میں کتاب کی عمر ظاہر ہے بہت زیادہ ہوتی ہے طالب علم نے ضروری سمجھا کہ ان دو باتوں کی وضاحت یا یوں کہہ لیجئے کہ تصحیح کے لئے الگ سے کالم لکھ دے۔

یہ وضاحت سیدہ ماہ پارہ صفدر پر تنقید ہے نہ ان کی محنت کا تمسخر اڑانے کی کوشش، تاریخ بذات خود ایک مضمون ہے۔ انہوں نے جو بات سنی وہ آگے بڑھائی۔ مجھ قلم مزدور نے جو پڑھا دیکھا اور مندرجہ بالا دو باتوں پر مختلف اوقات میں ہوئے تبادلہ خیال سے جو سمجھا وہی عرض کیا۔

ان کی کتاب پر مزید باتیں ہوں گی، کتاب پڑھ لوں آرام سے۔