1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. عمران خان "غصے" میں ہیں

عمران خان "غصے" میں ہیں

"محب وطن آرمی چیف سے زرداری اور نوازشریف ڈرتے ہیں کیونکہ وہ ان کی چوریاں پکڑے گا"۔ فیصل آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تقرری کو جلسہ کا موضوع بناتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ان پر اضطراب ظاہر کرنے والے اپنی نپی تلی رائے دے رہے ہیں تو ان کے مخالفین اپنا سودا بیچ رہے ہیں جبکہ ان کے سیاسی معاونین (پی ٹی آئی رہنما) ان ارشادات کی تفسیر بیان کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔

ان کے عقیدت مندوں کا خیال ہے کہ انہوں نے جرات کے ساتھ امریکی منصوبے کے آخری حصے کا بھانڈہ بیچ چوراہے پہ پھوڑدیا ہے۔ گزشتہ دو دنوں میں چند دوستوں نے خان صاحب کے حالیہ ارشادات عالیہ پر رائے چاہی تو عرض کیا، مناسب ہوتا اگر وہ احتیاط سے کام لیتے۔ یہ احتیاط اس لئے بھی لازم تھی کہ وہ چند دن قبل یہ کہہ چکے تھے کہ "مجھے تو زرداری اور نوازشریف کی کرپشن کی کہانیاں ایجنسیوں نے سنائیں ان ایجنسیوں کے بڑے فائلیں لاکر دیکھاتے تھے"۔

اس انکشاف کے بعد اصولی طور پر عمران خان کو دو کام کرنے چاہئیں اولاً یہ کہ وہ عوام سے معافی مانگتے اور اعتراف کرتے کہ وہ ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے خود ان کے پاس مخالفین کی کرپشن کے ٹھوس ثبوت نہیں تھے۔ معلومات کے ذرائع ایجنسیوں کے بڑے اور اہلکار تھے یا پھر میڈیا مینجمنٹ کے تحت کروائے گئے وہ ٹی وی پروگرامز جن میں کرپشن کہانیوں پر طوفان اٹھایا جاتا تھا۔

اس اعتراف کے لئے ایک ہی بات کافی تھی وہ یہ کہ خان صاحب قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر الزام لگایا کرتے تھے کہ انہوں نے 500 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔

اقتدار میں آئے تو نیب کے اس وقت کے چیئرمین کو بطور خاص ہدایت کی کہ خورشید شاہ کے خلاف 500ارب روپے کی کرپشن پر ریفرنس بنایا جائے طاقت و اختیارات کے رسیا نیب چیئرمین نے ہدایت پر حرف بحرف عمل کیا۔

500ارب روپے کی کرپشن میں گرفتار خورشید شاہ کے اس ریفرنس کا نتیجہ کیا نکلا۔ (یاد رکھئے یہ نتیجہ خان کے اپنے دور اقتدار میں برآمد ہوا) 25سے 30کروڑ کے معاملات وہ بھی ان کے نہیں بلکہ ان کے چند دوستوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیداد اور پیسوں کے ظاہری مالک ہیں۔

اچھا کیا وہ بے نامی جائیدادیں اور پیسہ دونوں نیب نے ضبط کئے؟ یہ سوال کیجئے نیب سے جواب ملے تو اس تحریر نویس کو ضرور آگاہ کیجئے گا۔

خان صاحب کے دور میں تحقیقات ہوئیں ریفرنس بنا، غلط درست کے وہی ذمہ دار ہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کےلئے ایک اور زندہ مثال عرض کئے دیتا ہوں۔

خان صاحب کے دور میں جعلی اکائونٹس پکڑنے کی "انصافی بہار" شروع ہوئی تھی کھربوں روپے کے جعلی بینک اکائونٹس پکڑے گئے۔ سندھ کے بینکوں کے جعلی اکائونٹس زرداری کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے اس پر کیس بھی بنا اس کیس کے ابتدائی حصہ میں بات کھربوں روپے سے چند کروڑ پر آگئی یہ بھی نیب کا ریکارڈ کہتا ہے۔ اسی کیس میں زرداری کی ہمشیرہ بھی گرفتار ہوئیں۔

اسی طرح کے جعلی اکائونٹس کا ایک معاملہ خیبر پختونخوا میں سامنے آیا۔ 53ارب سے 80ارب کے اکائونٹ پکڑنے کے دعوے ہوئے۔ ان اکائونٹس کی ایک دن چند اخبارات میں خبر شائع ہوئی (اس تحریر نویس نے ان سطور میں تفصیلات کے ساتھ چند سوالات بھی اٹھائے تھے) اگلے دن اخبارات اور چینلز کو غیرتحریری ہدایات ملیں اور خبر گم۔

تب ہم نے عرض کیا تھا کہ خیبر پختونخوا والے بینک اکائونٹس نہ صرف گلے پڑیں گے بلکہ جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا وہی ہوا ان اکائونٹس کی خبروں کا ذکر فیٹف میں پاکستان کے خلاف ہونے والے اقدامات میں موجود ہے۔ وہ اکائونٹس کس کس کے تھے کیا خان صاحب دو باتیں بھرے مجمع میں کہہ سکتے ہیں؟

اولاً یہ کہ ان کی معرفت اس وقت وفاقی وزارت اطلاعات کو ہدایت کس نے بھجوائی کہ ان اکائونٹس کا مزید ذکر نہ ہو۔ اور یہ کہ اس معاملے کو دبانے کے لئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے خلاف نیب کو مزید فعال کیا جائے۔

خان صاحب ایک سے زائد بار کہہ چکے کہ ان کے دور میں نیب پر ان کا کنٹرول نہیں تھا۔ آصف زرداری اور نوازشریف وغیرہ کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دی گئی۔ وہ آجکل "گامن سچار" بنے روز نواں کٹا کھولتے ہیں کسی دن یہ کٹا بھی کھول ہی دیں کہ ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نیب کو حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف کارروائی کے لئے جو ہدایت نامہ جاری کرتے تھے وہ ہدایات خان صاحب دیتے تھے یا کوئی اور؟ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ خان صاحب کا غصہ انہیں بھی سمجھ آنا چاہیے جنہوں نے کرپشن کی رام لیلائوں سے ان کا جی بہلاکر انہیں کرہ ارض کا واحد ایماندار بااصول اور عالمی سطح کا مدبر بناکر پروان چڑھایا۔

ایک ایسا عالمی مدبر جو تاریخ، ادیان، جغرافیہ، سیاست، تاریخ اسلام، یورپ، پاکستان کے سیاستدانوں کی کرپشن کہانیاں سب سے زیادہ جانتا ہے لیکن گھر اور ناک کے نیچے ہوئی کرپشن بارے اسے بالکل بھی علم نہیں تھا۔ معاف کیجئے گا علم نہیں تھا یا؟ فقیر راحموں کا خیال ہے کہ "خان کے غصے کی دو فوری وجوہات ہیں پہلی یہ کہ جن سیاسی جماعتوں کی کرپشن کہانیوں کے رزق پر انہیں پروان چڑھایا گیا جب وہ سیاسی جماعتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں اس وقت ان قوتوں نے ان کی مدد نہیں کی بلکہ مخالفین کے لئے سہولت کاری کی۔

وہ اس سہولت کاری کو امریکہ کا حکم (سازش) قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "یہ سب امریکی سازش کے مہرے بنے" کون سب؟ وہی جنہیں وہ میر جعفر و میر صادق پھر ایکس وائی زیڈ کہتے پھرے اور ہر بار اپنی بات سے چند دن کے بعد پلٹے مگر اس عرصے میں ان کے ٹائیگرز نے سوشل میڈیا پر "ات اٹھادی"۔

اب صورت یہ ہے کہ سابق عسکریوں کی اولادیں اور خود بڑی تعداد میں سابق عسکری ملازمین سوشل میڈیا پر جو کہہ لکھ رہے ہیں کم از کم مجھے اس پر حیرت ہے نہ افسوس۔ جن طبقات نے نسل در نسل صرف جمہوری سیاست کو گالی بناکر پیش کیا ہو ان سے خیر کی توقع نہیں اس لئے بھی ان طبقات کو عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا، دیوتا، نجات دہندہ، ایماندار اور سمارٹ قائد دیا گیا تھا۔

اس عظیم مہاتما کا اقتدار ظاہر ہے کہ "عدم اعتماد" کی تحریک سے ختم نہیں ہوسکتا تھا، یقیناً عالمی سازش ہوئی اور یہی ان کے عقیدت مند کہتے ہیں۔ خود انہیں بھی یقین کامل ہے کہ اگر امریکی سازش نہ ہوتی تو وہ اب بھی اقتدار میں ہوتے۔ ان کے اس دعوے کا تجزیہ ان کے پونے چار سالہ دور اقتدار کے عرصہ میں پاک امریکہ تعلقات پر نگاہ ڈال کر کیا جاسکتا ہے۔

عمران خان کی فیصل آباد والی تقریر سے سیاسیات و صحافت کے اس طالب علم کو بس اتنی سی دلچسپی ہے کہ وہ اپنے ہی " گارڈ فادرز" پر برس پڑے لیکن کیا یہ پہلی بار ہوا؟ جی نہیں، جب آپ ایجنسیوں کے سابق و حاضر صاحبان کے ذریعے کسی شخص کو ایمان کی حد تک یقین دلادیں کہ "تمہاری فلاں اہلیہ برطانوی ایجنسی کی ایجنٹ ہے" اور نتیجہ بھی مرضی سے نکلوالیں تو پھر اگلا بندہ تو آپ کی ہر بات کو "الہامی ہدایت" درجہ دے کر تسلیم کرے گا، کرے گا کیا کرتا رہا (اعتراف موجود ہے) اس کی سرپرستی ترک کریں گے تو پھر بھگتیں۔

پنجاب میں کہتے ہیں"سانوں کی"۔ لیکن سچ یہ ہے کہ معاملہ "سانوں کی" والا نہیں صورتحال کشیدہ بھی ہے اور کبیدہ بھی۔ اس ماحول میں فواد چودھری کی اس بات پر آپ ہنسیں یا روئیں یہ آپ کی مرضی ہے مگر وہ کہہ چکے کہ لوگوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔

ان کی بات سے کم از کم میں متفق ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ ان چھائونی بوائز و گرلز کی کم از کم چار نسلیں جمہوری سیاست کی نفرت پر پلی بڑھیں وہ نام نہاد مڈل کلاس جو 2013ء سے قبل ووٹ ڈالنے کے عمل کو منہ بھر کے گالی دیتی تھی اسی پروپیگنڈے کی اسیر تھی کہ سیاست دان چور ہیں۔ ملک میں بس ایک ادارہ ایسا ہے جو خدا کے بعد اس ملک کو سنبھالے ہوئے ہے اس ادارے نے انہیں ایک "اوتار" عطا کیا وہ اس کے لئے کھجل ہوئے اب "وہ" کھجل ہورہا ہے۔

ذمہ دار وہ ہیں / کون ہے؟ اس کی وضاحت کیا کریں۔ دو باتیں کالم کی آخری سطور میں عرض کئے دیتا ہوں۔

آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت عمران خان کے خلاف کاروائی کی بجائے ایجنسیوں کے ان سابقین کے خلاف ہونی چاہیے جنہوں نے نصف صدی اس قوم کی بربادی کی اور اس معاشرے میں عدم برداشت و نفرت کی فصلیں کاشت کیں۔

دوسری بات خان صاحب کے لئے ہے۔ وہ یہ کہ کوشش کیجئے کہ بات اور تقریر کرتے وقت احتیاط کیا کریں ورنہ گزشتہ روز جو کچھ سکھر میں ہوا وہ باقی ماندہ ملک میں بھی ہوسکتا ہے ایسا ہوا تو انارکی کا دروازہ کھل جائے گا۔