1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. جواب طلب سوال

جواب طلب سوال

امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں تحمل برداشت اور مفاہمت سے زیادہ شخصی انانیت کی اہمیت دوچند ہے۔ روزمرہ کے سنگین ہوتے مسائل پر باہم مل بیٹھ کر ہی کوئی سوچنے پر آمادہ نہیں تو بحرانوں اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اتفاق رائے کیسے ہوپائے گا۔

مذہبی و سیاسی جماعتوں کی اکثریت بالغ نظری کی جمہوری فہم سے زیادہ "میں نہ مانوں" کی سوچ پر قائم ہیں۔ اس عدم برداشت کے سماجی ڈھانچہ پر مرتب ہوئے اثرات سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا۔

غور طلب امر یہ ہے کہ اگر سیاسی قائدین نے اپنا رویہ درست نہ کیا، عدم برداشت کے خاتمے کے لئے انانیت کو ترک کرکے ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو ایسے میں کوئی بہتری ممکن ہے؟

پی ٹی آئی نے گزشتہ سے پیوستہ روز خیبر پختونخوا اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اب تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کرے گی۔

وجہ وہی گزشتہ روز کے بائیکاٹ والی ہے کہ حکومت ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنارہی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے حسب سابق آج بھی اپنے مخالفین کے لئے ذومعنی جملے استعمال کئے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعویداری صبح شام ہے مگر ملک کو لاحق خطرات اور عوامی مسائل پر سنجیدہ بات چیت سے انکار۔ نرم سے نرم الفاظ میں"کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی" جیسا معاملہ ہے۔

اصولی طور پر دہشت گردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کیوں اتفاق رائے کے اس عمل سے الگ رہنا چاہتی ہے؟ اگر اس کی وجہ مقدمات ہیں جو بقول پی ٹی آئی رہنما جھوٹے ہیں تو عدالتوں میں ان جھوٹے مقدمات کو چیلنج کرنے میں کیا امر مانع ہے۔

ثانیاً یہ کہ کیا اپنے پونے چار برس کے دور اقتدار میں پی ٹی آئی نے اس روش کا مظاہرہ نہیں کیا جو آج ان کے نزدیک قابل مذمت ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اپنے دور اقتدار میں کسی بھی معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے

اس وقت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو وہ اپنے نظریہ اور جدوجہد کی توہین قرار دیا کرتے تھے آج بھی وہ اور ان کی جماعت اس امر کا تجزیہ کرنے پر آمادہ نہیں کہ عدم برداشت کی اس سیاست نے انہیں کیا دیا، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اپنی غلطیوں کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کرے۔ سیاسی عمل بند گلی نہیں کھلے میدان کا متقاضی تھا اور ہے۔ سیاسی جماعتیں شخصی یا گروہی نفرت پر سفر طے نہیں کرتیں بلکہ ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر خود پی ٹی آئی کے دور میں شروع ہوئی اس وقت پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر پی ٹی آئی دہشت گردوں سے کابل میں مذاکرات کررہی تھی اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا دہشت گردوں نے۔

وزیراعظم نے منگل 7فروری کو دہشت گردی کے خلاف جامع قومی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے اے پی سی بلائی ہے یہ ذاتی عشائیہ کی دعوت ہرگز نہیں۔ قومی حکمت عملی وضع کرنے کے عمل سے الگ رہ کر پی ٹی آئی کسے کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب تحریک انصاف کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں۔

جہاں تک وزیراعظم شہباز شریف کی اس بات کا تعلق ہے کہ دہشت گردوں کی مدد کے تمام ذرائع ختم کرنے کیلئے حکومت اور سکیورٹی حکام میں کامل اتفاق ہے تو اس حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ 2010 سے آج تک 12 برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی پر کھربوں روپے صرف کرنے سے کیا حاصل ہوا؟

دہشت گردوں کی کمر توڑدی گئی کا معروف بیانیہ ہر دوچار دنوں بعد ہوا میں اڑتا دیکھائی دیتا ہے۔ سوات آپریشن سے آپریشن ردالفساد تک جو دعوے کئے جاتے رہے وہ کیا تھے۔ دہشت گرد اس قدر طاقتوراور باوسائل کیسے ہوئے ثانیاً یہ کہ ان کے ملک کے اندر موجود ہمدردوں اور سہولت کاروں کے خلاف قانون حرکت میں کیوں نہ آیا؟

امید کی جانی چاہیے کے اے پی سی میں شریک سیاسی جماعتوں کے قائدین میں کوئی نہ کوئی عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ سوال ضرور اٹھائے گا۔ یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ افغانستان سے امریکہ نیٹو انخلاء کے بعد پورا ملک جدید ہتھیاروں کی غیرقانونی منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپ اس منڈی سے جدید ساخت کا اسلحہ خرید ر ہے ہیں لیکن خریداری کے اس عمل کے لئے وسائل کہاں سے آتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں رٹے رٹائے موقف کہ بھارت وسائل فراہم کررہا ہے سے عوام کو بہلانے کی بجائے کم ازکم پچھلے دس برسوں کے دوران ایجنسیوں کی وہ رپورٹس ضرور اے پی سی میں زیربحث لائی جائیں جس میں کالعدم تنظیموں کے حصول وسائل کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔

پشاور اپیکس کمیٹی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ "پاکستانیوں کا خون بہانے والوں کو نشان عبرت بنادیں گے"۔ ایسے دعوے سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے ہیں۔ اجلاس یا اے پی سی کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں سوال اصل میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ آخر کب تک عوام کو بلندبانگ دعوئوں سے بہلایا جاتا رہے گا۔

سرتسلیم خم کہ قوم کی امیدوں پر پورا اترنے کا عزم ہے لیکن قوم ہی پوچھ رہی ہے کہ پچھلے کم وبیش 14برسوں میں انسداد دہشت گردی کی جنگ کی کامیابی کے لئے اس نے اپنا پیٹ کاٹ کر جو وسائل فراہم کئے ان سے حاصل وصول کیا ہوا؟

دہشت گردی کے کسی بھی المناک واقعہ کے بعد جس طرح کے بیانات ارباب حکومت اور عسکری حکام کی جانب سے آتے ہیں ان سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم آج بھی سوات آپریشن سے پہلے والی صورتحال سے دوچار ہیں۔

ہماری دانست میں سوات آپریشن سے آج دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہوئے اقدامات اور ان پر اٹھے اخراجات دونوں کا حساب پارلیمان میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ پارلیمان کے توسط سے ہی سہی عوام یہ تو جان سکیں کہ کھربوں روپے کے وسائل کی فراہمی اور ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی دینے کے بعد بھی اگر دہشت گردوں کے خلاف نئے قومی میثاق اور حکمت عملی کی، ضرورت ہے تو اس ضمن میں اب تک کیا ہوا؟

ہم مکرر یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ دہشت گرد ملک اور 23کروڑ شہریوں کے مشترکہ دشمن ہیں کسی شخص، جماعت یا گروہ کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ انسانیت کے قاتل انہیں کچھ نہیں کہیں گے بلکہ ان کے مخالف کو مٹانے کے مشن پر ہیں اگر کسی کو ہے تو وہ یہ غلط فہمی دور کرلے۔

اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ منگل 7فروری کی آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کرنی چاہیے محض سیاسی اختلاف یا شخصی انا کی تسکین کے لئے اے پی سی میں عدم شرکت لائق تحسین عمل ہرگز نہیں ہوگا البتہ اگر اس اے پی سی میں پچھلے 12 برسوں میں اس حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور خرچ ہوئے وسائل پر بھی بات کرلی جائے تو اس سے کسی کی سبکی نہیں ہوگی بلکہ حکمت عملی کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

ہم بار دیگر تحریک انصاف کی قیادت سے درخواست کریں گے کہ وہ وزیراعظم کی دعوت پر منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں بہرصورت شرکت کرے اس حساس قومی مسئلہ کو پی ٹی آئی کی روایتی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔

پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ بات بطور خاص سمجھنا ہوگی کہ دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے کے عمل میں اس کی عدم شرکت سے ان حلقوں کے موقف کو تقویت ملے گی جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کی ہم خیال دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں چاہتی۔ امید واثق ہے کہ سابق حکمران جماعت کی قیادت اپنے موقف پر نظرثانی کرے گی۔