1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. خان، نیوٹرل اور شیخ

خان، نیوٹرل اور شیخ

خان صاحب (عمران خان) اور نیوٹرل کی "جنگ" فوری طور پر ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس لئے دونوں کی چاند ماریوں کو سنجیدہ لینے کی بجائے صرف "دلپشوری" کیا کیجئے، وجہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔

رواں سال فروری یا مارچ کے مہینے میں ہی خان نے نیوٹرل ٹیم کے کپتان کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جمہویرت پسند قرار دیا تھا۔ پھر اپریل میں میر جعفر میر صادق قرار دے دیا۔

اسی اپریل میں قلابازی بھرتے ہوئے کہا میں تو میر جعفر اور میر صادق نواز اور شہباز کو کہتا ہوں۔ سوشل میڈیا ان کے اس بیان کے نیچے ایک دل جلے نے لکھ دیا "سمجھنے والے خود ہی سمجھ جائیں"۔

آپ کو یاد ہوگاکہ کسی زمانے میں خان نے دو باتیں کہی تھیں ایک یہ کہ خدا کبھی مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان نہ بنائے۔ دوسری یہ ہے کہ میں شیخ رشید کو کبھی چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ اب اس کا کیا کیجئے کہ خان جماندرو طور پر شیخ رشید جیسا "سیاستدان" ہی ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں اس کی اوئے توئے والی زبان اصل میں کھیلوں کے میدان اور ڈریسنگ رومز کی دین ہے۔ عین ممکن ہے درست کہتے ہوں۔ خان بھی کبھی شیخ رشید کی طرح مجاہد تحفظ ختم نبوتؐ ہوا کرتا تھا یہ دو ہزار سولہ اور دو ہزارہ سترہ کی بات ہے۔

خان روحونیت پر "اتھارٹی" ہے اسی لئے اس موضوع کو پڑھانے بڑھانے کے لئے ایک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ خان اس کی خاتون خانہ اس یونیورسٹی کی ٹرسٹی ہیں۔ ظلم یہ ہوا ہے کہ کچھ دشمنان "روحونیت" عبدالقادر روحانی یونیورسٹی کے لئے لی گئی زمین کا بہی کھاتہ نکال لائے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ زمین برطانیہ میں ملک ریاض سے وصول کئے گئے 50ارب روپے چپکے چپکے واپس کرنے کے عوض لی گئی ہے۔

برطانیہ اور 50ارب روپے کی رقم سے یاد آیا اس حوالے سے ہوئے معاہدے میں اس جائیداد کا ذکر بھی ہے جو ملک ریاض نے لندن کے ایک معروف پراپرٹی ڈیلر حسین نواز سے خریدی تھی۔ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے معاہدہ افشاں کرنے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔

فقیر راحموں کو حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستان میں 50ارب روپے، ملک ریاض اور روحانی یونیورسٹی کے ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں کا ذکر تو بہت ہوا لیکن اس سارے قصے میں دو بندے نظرانداز ہوگئے

ایک وہ جس نے ملک ریاض کو پراپرٹی فروخت کی تھی اور دوسرا، ملک ریاض کے ساتھ "بالابالا" معاملہ طے کرنے والے سابق مشیر احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر۔

پہلا بندہ لندن میں ہی ہوتا ہے اور ہمارے سپر مین آف سول سپر میسی المعروف ووٹ کو عزت دو والے میاں نوازشریف کا لخت جگر ہے۔ دوسرا بند آج کل کہاں ہے اللہ جانے یا پھر خان۔

بات کچھ نہیں بلکہ زیادہ ہی دور نکل گئی واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ خان کی دوسری بات تھی اگر مجھے اقتدار ملے تو میں شیخ رشید کو چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ اقتدار ملا تو شیخ رشید کو چپڑاسی کی جگہ وزیر ریلوے رکھ لیا۔

وزیر بنانے کے لئے اسے تحریک انصاف اور برصغیر پاک و ہند کی عظیم جماعت عوامی مسلم لیگ کا مشترکہ امیدوار بناکر قومی اسمبلی کارکن بھی بنوایا۔ ڈر لگا رہتا ہے کہ کسی دن خان اس بندہ خدا کا نام "بھرے چوک" میں نہ لے دے جس نے 2013ء کے عام انتخابات سے قبل خان کو شیخ رشید احمد تحفے میں دیا تھا۔

تحفہ کس کو پسند نہیں آج دوپہر ایک دوست فقیر راحموں کو ملنے آئے اور بھرپور مہنگائی کے اس دور میں "ڈن ہل کا ایک کارٹن" تحفتاً پیش کیا۔ حرام ہے کہ فقیر راحموں نے ایک بار بھی تحفہ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہو یار اس مہنگائی میں کیا ضرورت تھی خود پر بوجھ ڈالنے کی۔

اب اگر فقیر راحموں جیسا عام شہری ڈن ہل کا کارٹن بطور تحفہ خوشی و رضامندی سے وصول کرلیتاہے تو خان کو کیا پڑی تھی کہ وہ شیخ رشید کی صورت میں دیا گیا تحفہ قبول نہ کرتا۔ دروغ برگردن راوی۔

جن صاحب نے شیخ رشید، خان کو تحفہ میں دیا ان سے خان نے پوچھا جنرل صاحب (اب نہ پوچھ لیجئے گا حاضر جنرل تھا یا ریٹائر) اس کی کیا ضرورت ہے۔ تحفہ دینے والے نے کہا بہت کام کا بندہ ہے۔ آپ نے صرف "اشارہ" کرنا ہے پھر شیخ جانے اور اگلا بندہ۔

پچھلے 9سال کے شب و روز پر ایک نگاہ ڈال لیجئے، غور کیجئے اس سارے عرصہ میں کیا شیخ رشید تحفہ دینے والے کی اس بات پر پورا نہیں اترا کہ "آپ نے صرف اشارہ کرنا ہے پھر شیخ جانے اور اگلا بندہ"۔

2013ء سے 2018ء کے زمانہ اپوزیشن میں شیخ کی مجلسی گفتگو، بازاری ٹھٹھے اور جلسوں کے خطابات نکلواکر دیکھ لیجئے ماردو، جلادو، آگ لگادو، میں خود آگ لگادوں گا، قربانی والی عید سے پہلے قربانی ہوگی، ستمبر کے بعد اکتوبر، نومبر اور پھر دسمبر آئیں گے۔

اس سے سوا کیا رکھا تھا شیخ کی باتوں میں ویسے اس کے علاوہ اسے آتا جاتا بھی کچھ نہیں۔ فقیر راحموں کا پرانا دوست ہے اس لئے مزید راکھ کریدنے سے اجتناب اچھا ہے۔

شیخ کے ایک ٹی وی انٹرویو کا کلپ آجکل بہت وائرل ہے۔ وہی جس میں کہہ رہا ہے کہ "خان نے حکومت کے خاتمے کا یقین ہوتے ہی آنے والی حکومت کے کریا کرم کے لئے بارودی سرنگیں بچھادیں"۔

ویسے یہ جوڑی "خان اور شیخ" کی جوڑی ہے بہت دلچسپ یوٹرن اور دوسروں کا تمسخر اڑانے کے علاوہ بھی "مشترکات" بہت ہیں۔ چھوڑیں ہمیں اور آپ کو ان مشترکات سے کیا لینا دینا۔

بندہ جس کو چاہے چپڑاسی نہ رکھنے کا اعلان کرے پھر اتحادی بنائے۔ ایک دن وزیر ریلوے اور بعد میں وزیر داخلہ۔ اب اگر کبھی کسی نے تحقیق کے گھوڑے دوڑائے تو اسے یہ لکھنا پڑے گا کہ خان کے پونے چار سالہ اقتدار کی "منجی ٹھوکنے" میں لال حویلی والے شیخ رشید کا بھی خاصا حصہ ہے۔

آپ تلاش کرسکیں تو مختلف اینکروں سے پچھلے چند ماہ کے دوران شیخ کی "کلامی کلامی" سے بھری گفتگوئوں کی ویڈیوز نیٹ سے مل سکتی ہیں۔ ایک میں تو خود شیخ کہہ رہا ہے کہ "تحریک عدم اعتماد نے ہمیں زندگی عطا کردی ورنہ دیوالیہ ہونے کا طوق ہمارے گلے پڑنا تھا"۔ اور بھی بہت کچھ دستیاب ہے تلاش کیجئے اور ایمان کا حقہ تازہ۔

بات خان اور "نیوٹرل" کے درمیان جاری جنگ سے شروع ہوئی تھی سوشل میڈیا پر خان کے حلقہ ارادت میں شامل انصافی مجاہدین کے فیس بک اور ٹیوٹر اکائونٹس کا دورہ کریں یا تانک جھانک آپ کے انیس طبق روشن ہوجائیں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ مثال تو 14طبق روشن ہونے کی ہے پھر یہ 19طبق کہاں سے آگئے۔ یہی تو اصل چیز ہے۔

خان نے دو دن قبل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے لئے بلائے جانے پر ایک بار پھر "نیوٹرل" پر وار ہی وار کئے۔ اس تقریب میں کچھ وار ایک وکیل مقرر نے خان پر بھی کئے تھے۔ خان کو چاہیے تھا ان کا جواب خود دیتا تاکہ "مچ بھخ" جاتا خیر جو اب نہیں دیا تو اس ک مرضی۔

خان آجکل مہنگائی کے مارے عوام کے دکھوں پر بہت پریشان ہے۔ آلو، پیاز، ٹماٹر، دالوں اور دوسری چیزوں کی بڑھتی چلی جاتی قیمتوں نے اسے پریشان کررکھا ہے۔ میرے کچھ نہیں بہت زیادہ دوستوں کے خیال میں خان اس ملک کا نجات دہندہ ہے۔

میں بھی اسے ایک معنوں میں نجات دہندہ ہی سمجھتا ہوں بس لکھ نہیں سکتا۔ صحافتی اخلاقیات مانع ہیں۔ بہرحال اللہ خان اور شیخ کی جوڑی کو سیاست کی مزید توفیق دے۔ بس دونوں کی باتوں کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہرگز نہیں بس دلپشوری کیا کریں۔