1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. خطاب، احتجاج اوردھرنے

خطاب، احتجاج اوردھرنے

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جس وقت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے، پریس گیلری خالی تھی، پارلیمان کے باہر دو احتجاجی دھرنے جاری تھے اولاً اہل صحافت کا اور ثانیاً ان برطرف شدہ ملازمین اور ان کے خاندانوں کا جنہیں سپریم کورٹ کے ایک محترم جج جناب مشیر عالم نے اپنی سبکدوشی والے دن ملازمتوں سے برطرف کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے گھروں کو بھیج دیا تھا۔

ان برطرف ملازمین کو ملازمتیں دینے کا سنگین جرم پاکستان پیپلزپارٹی نے کیا تھا اور نواز لیگ کے دور میں نکال دیئے گئے تھے، بعدازاں بحالی اور برطرفی کے اس ملاکھڑے سے تنگ آکر پیپلزپارٹی نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے انہیں بحال کرکے قانونی تحفظ فراہم کردیا۔ اس قانونی تحفظ کا کیا ہوا؟ وہی جو اس ملک میں ہوتا ہے۔ اب ملازمین احتجاج کررہے ہیں۔

پریس گیلری صدر مملکت کے خطاب والے دن بند کردی گئی۔ یہ کس کے حکم پر ہوا، سپیکر قومی اسمبلی یا وفاقی وزیر اطلاعات یا پھر دونوں کی باہمی مشاورت سے؟ البتہ یہ حقیت ہے کہ حکومت کو خطرہ تھا کہ پریس گیلری سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران احتجاجی آوازیں اور نعرے بلند ہوسکتے ہیں۔ یہ خدشہ غلط بھی نہیں تھا۔ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی والے بل پر اہل صحافت یکسو ہیں کہ یہ مارشل لاء کے ضابطہ 39کا نیا روپ ہے۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب کے دوران میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پریس گیلری کی طرف دیکھا اور حیران ہوئے، کچھ پریشان بھی۔ پریس گیلری خالی جو تھی۔ ڈاکٹر صاحب (صدر مملکت) اللہ کے فضل و کرم سے موقع شناس شخص ہیں۔ بات کو آگے بڑھاگئے لیکن یہ آٹھ دس ساعتوں کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

ایک قلم مزدور کی حیثیت سے مجھے کم از کم اس سے انکار نہیں کہ زرد صحافت پر گرفت ہونی چاہیے۔ لطیفہ یہ ہے کہ زرد صحافت کے بل بوتے پر رائے عامہ کو گمراہ کرکے اقتدار حاصل کرنے والے اب پریشان ہیں۔ اگر آپ پانامہ میں بلاکر اقامہ میں سزا دیں گے تو یہی کچھ ہوگا جو ہورہا ہے۔ سندھ میں پکڑے گئے جعلی اکاونٹس کا مالک زرداری کو قرار دیں گے اور خیبرپختونخوا میں پکڑے گئے 53جعلی اکائونٹس کی پہلی خبر نشر ہونے کے بعد اہتمام فرمائیں گے کہ اس حوالے سے مزید کوئی خبر نشر ہو نہ تجزیہ و سوال تو پھر سوچئے کیا ہوگا۔

ذرائع ابلاغ کو منفی پروپیگنڈے کے لئے سب سے زیادہ کس نے استعمال کیا اس بارے سبھی خاص و عام جانتے ہیں تفصیل سے عرض کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر وقت ایک چور، کرپٹ، ڈاکو، غدار، کافر اور یہودوہنود کے ایجنٹ کی ضرورت رہتی ہے۔ اچھا یہ پورے برصغیر کا المیہ اور ضرورت ہے ہم کوئی آسمان سے اتری مخلوق ہرگز نہیں۔ گزشتہ چوہتر برسوں کے دوران کون ہے جو چور، کرپٹ، ڈاکو، غدار، کافر اور یہودوہنود کا ایجنٹ قرار نہیں پایا؟ ایک دو فتوے اور بھی ہیں لیکن فساد خلق کے ڈر سے ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔

ایک بار ان سطور میں عرض کیا تھا کہ 22کروڑ کی آبادی میں سے 21کروڑ 90لاکھ افراد مختلف رنگ و نسل، ذات پات و عقیدوں اور حب الوطنی سے انحراف والے فتوئوں کی زد میں آتے ہیں پیچھے بچے 10لاکھ افراد وہ خدا کا شکر ادا کریں۔ اس تبصرے کے جواب میں کچھ سکہ بند غداروں اور کافروں نے اپنا موقف بھجوایا جو ہم نے حب الوطنی کے خالص جذبے کی بدولت نظرانداز کردیا۔ پرائے بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں۔ جان ہے تو جہان ہے۔

ان دنوں کچھ لوگ حب الوطنی کے جذبے سے ہی سوشل میڈیا پر میڈیا اتھارٹی بل کے حق میں مہم چلاتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ جھوٹی خبروں کی روک تھام کے قانون پر صحافیوں کو اعتراض کیوں ہے؟ احتجاج کس بات پر ہے؟ فقیر راحموں کہتے ہیں اللہ کی شان ہے کہ ڈیڑھ عشرے تک جھوٹ کو "شربت صندل" بناکر فروخت کرنے والوں اور ان کے ہمدردوں کو اب جھوٹی خبریں یاد آنے لگیں۔ ذرا وہ سچ تو بتادیجئے جو 126 دن کے دھرنے میں بولا گیا ہو؟

مکرر عرض ہے میڈیا اتھارٹی بل، مارشل لائی قوانین کا چربہ ہے۔ خبر، تجزیہ اور کالم جھوٹ پر بُنے گئے ہیں تو ملکی قوانین موجود ہیں کیجئے کارروائی۔ اچھا ویسے کارروائی ہوئی تو سارے سیاسی مسافر جیلوں میں ہوں گے۔میڈیا کی آزادی سے یہ پہلی حکومت نہیں جو تنگ ہے، حالانکہ جتنی آزادی ہے یہ "وہ" بھی جانتے ہیں۔

فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ یہ میڈیا اتھارٹی بل کہیں سے واٹس ایپ پر آیا ہے۔ ان کے دعوے کی تردید ممکن نہیں۔ البتہ یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل جب مختلف شہروں میں کچھ "بڑے" صحافیوں سے ملاقاتوں میں عمومی صورتحال جانتے پھررہے تھے تو ایسی ہی ایک ملاقات میں ہم نے ایک "بڑے صاحب" سے عرض کیا تھا یہ جس قسم کی فصل آب بورہے ہیں کل یہ آپ کے گلے پڑے گی۔ ہمارا اصل المیہ یہی ہے کہ سنجیدہ مشورہ"بڑے صاحب " نہیں سنتے بھالتے۔

مثال کے طور پر گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی اعلیٰ ترین بلکہ تاریخ ساز کامیابیوں پر ایک خصوصی اشاعت خصوصی میڈیا ہائوس کے ذریعے شائع کروائی گئی 40صفحات کی اس خصوصی اشاعت کے اخراجات حکومت فنڈز سے ہی ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے گزشتہ ادوار میں ایسی اشاعتوں اور اشتہارات پر ایک مخصوص "جملہ" اچھالا جاتا تھا، خیر چھوڑیئے آیئے صدر مملکت کے پارلیمان سے خطاب کا ہلکاپھلکا ذکر کرلیتے ہیں۔

فرماتے ہیں، دنیا عمران خان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرے۔ کیا ذہانت بھرا مشورہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس سے دنیا کو ملے گا کیا؟ صدر مملکت کے خطاب کے دوران پریس گیلری خالی تھی۔ اپوزیشن ایوان میں پلے کارڈز اٹھائے نعرے مار رہی تھی۔ پارلیمان کے با ہر دو دھرنے جاری تھے۔ اپوزیشن کے بعض رہنمائوں نے ان دھرنوں سے خطاب کیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی۔ میڈیا اتھارٹی بل پر جناب فواد چودھری بہت زیادہ جذبائی دیکھائی دیتے ہیں حالانکہ اس کی ضرورت نہیں۔

فقیر راحموں پوچھ رہے ہیں شاہ جی! حکومت پابند صحافت سے بھی اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے میں امر مانع تو کوئی نہیں لیکن جواب نہ بھی دیا جائے تو آسمان نہیں ٹوٹے گا۔ ویسے یہ میڈیا اتھارٹی بل اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا رولا پڑواکر مہنگائی اور غربت و بیروزگاری سے بدحال لوگوں کو نیاملاکھڑا دیکھاکر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے میں کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے؟

حرفِ آخر یہ ہے کہ وہ ریڈیو، ٹی وی کو بی بی سی کی طرح آزاد کرنے اور وزارت اطلاعات کو ختم کرنے کے دعوے کیا ہوئے؟ کسی دن ٹھنڈے دل سے غور ضرور کیجئے گا کہ کوئی ایسا وعدہ جو پورا ہوپایا ہو؟