1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. نون لیگ اور میڈیا کے مشترکہ امیدوار کی شکست

نون لیگ اور میڈیا کے مشترکہ امیدوار کی شکست

این اے 249کراچی میں جمعرات کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی نون لیگ، تحریک انصاف، پی ایس پی، کالعدم ٹی ایل پی اور ایم کیو ایم کو شکست دے کر نشست جیت گئی۔ نون لیگ کے مفتاح اسماعیل لگ بھگ پانچ سو ووٹوں سے ہارے پی پی پی کے قادر مندو خیل سے۔ الیکشن والے دن (جمعرات) کو کراچی کے زیادہ تر اخبارات اور خصوصاً آزادی صحافت کے صابن فروش اخبار میں ضمنی الیکشن کے امیدواروں میں پی پی پی کے امیدوار کا ذکر آخری سطور میں تھا۔ ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران الیکٹرانک میڈیا اور جاتی امرا نیوز نے کسی بھی مرحلہ پر پی پی پی کے امیداور کو مساوی وقت نہیں دیا بلکہ ان سب میڈیا چینلز کی متفقہ رائے تھی کہ پیپلزپارٹی کا امیدوار چھٹے نمبر پر بھی آجائے تو "بڑی" بات ہوگی۔

پچھلی شب نون لیگ کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے مرچیں چباتے ہوئے جاتی امرا نیوز پر جو گفتگو کی وہ سیاسی کارکنوں کے شایان شان ہرگز نہیں۔ اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر قبضے کی پراپرٹی کے تنازع میں قتل ہونے والے خواجہ رفیق کے صاحبزادے سعد رفیق نے تو حد ہی کردی۔ فقط یہی نہیں، ہمدردان نون لیگ متفقہ طور پر گزشتہ چند گھنٹوں سے پی پی پی اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایک لحاظ سے بہت اچھی ہے پیپلزپارٹی کو اب اپنی سیاست کرنی چاہیے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی رمضان المبارک سے قبل لاہور کے ایک بڑے گھر میں مفاہمتی اجلاس میں شرکت کرنے والی نون لیگ کا موقف ہے پیپلزپارٹی نے ان کا الیکشن چرالیا ہے۔ بیرون ملک بیٹھے کچھ پنجابی قوم پرستوں نے کراچی کے ضمنی الیکشن کو سیاسی عمل کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اسے سندھی پنجابی تنازع بناکر پیش کیا حرام ہے ان میں سے کبھی کوئی بلدیہ ٹاون کراچی کے علاقے میں گیا تک ہو۔ پچھلی شب کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کا پیپلزپارٹی کے ساتھ رویہ ویسا ہی تھا جیسا 2008ء سے 2013ء کے درمیان ان چند عظیم اینکروں کا ہوتا تھا جو رات کوگیلانی حکومت دفن کرکے سوتے تھے اور اگلی صبح پھر یک سے شروع کرتے تھے۔

نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو آپس میں لڑنے کی بجائے ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایک کالعدم مذہبی تنظیم کا امیدوار تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ ضمنی الیکشن کا یہ نتیجہ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے لئے الارمنگ ہے۔ ووٹ ڈالنے کا عمل سست رہا رائے دہندگان گھروں سے بہت کم نکلے۔ مجموعی طور پر لگ بھگ ستر ہزار کے قریب ووٹ ڈالے گئے۔ اس نتیجے نے مجھے 1970ء کے انتخابی نتائج کا عشروں تک تجزیہ کرنے والے جماعت اسلامی برانڈ صحافیوں کی یاد دلادی جو کسی بھی حلقہ میں پیپلزپارٹی کے علاوہ دوسرے امیدواروں کے ووٹ جمع کرکے کہا کرتے تھے پیپلزپارٹی کو 33فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ اس کی مخالفت میں 67فیصد ووٹ پڑے ہیں۔

این اے 249کا نتیجہ بھی کچھ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ ہمارے بہت سارے نون لیگی دوست پچھلی شب سو نہیں پائے وہ سوشل میڈیا پر جہاد اکبر برائے جاتی امرا میں مصروف رہے بلکہ کچھ تو اب بھی مصروف ہیں۔ الحمدللہ نون لیگ کے خمیر میں شامل نفرت کا شاندار مظاہرہ کررہے ہیں۔ جیالے بھی جواباً مورچہ بند ہیں۔ اس ضمنی الیکشن کے نتائج پر برہم لوگوں کی شکایات ممکن ہے درست ہوں لیکن گالم گلوچ سے بہتر متعلقہ فورم پر دادرسی کی اپیل ہے۔

ابھی کل کی بات تو ہے جب الیکشن کمیشن نے ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے نون لیگ کی اپیل منظور کرکے دوبارہ انتخابات کرائے تھے۔ ایک اپیل اور کرکے دیکھ لیجئے ہوسکتا ہے کہ "سعید مہدی کے داماد جی پھر سے مہربان ہوجائیں "۔

ابھی الیکشن کمیشن نے یہ بتاناہے کہ کیا کل ووٹوں کا دس فیصد پول ہوا اور کل ڈالے گئے ووٹوں میں پانچ فیصد خواتین کے ووٹ شامل ہیں یہ دونوں شرطیں پوری ہوئیں تو حتمی سرکاری نتیجہ جاری ہوگا۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمن کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے کہ پی پی پی نے پی ڈی ایم میں غیرمشروط واپسی کے لئے ان سے کوئی رابطہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے پی ڈی ایم میں واپسی مولانا فضل الرحمن اور شاہد خاقان عباسی کی تحریری معافی سے مشروط ہے کیونکہ ان دونوں صاحبان نے سیاسی اور اخلاقی روایات کو پامال کرتے ہوئے نہ صرف غلط بیانی کی بلکہ غلیظ الزامات بھی لگائے۔

ثانیاً یہ کہ پی ڈی ایم میں واپسی یا تعاون ہر دو کا فیصلہ اے این پی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ مشاورت کے لئے ضروری ہے کہ مولانا اور عباسی تحریری طور پر معافی مانگیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں شاہ جی کراچی ضمنی الیکشن کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا اور یوٹیوبرز سے اظہار ہمدردی واجب ہے کیونکہ ان کے سروے اور تجزیے انتخابی نتائج کا رزق ہوئے۔ بات تو فقیر راحموں کی درست ہے لیکن تعزیت صرف سید طلعت حسین سے بنتی ہے کیونکہ انہوں نے حق ملازمت خوب ادا کیا۔