1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. پیپلزپارٹی کی مکالماتی نشست

پیپلزپارٹی کی مکالماتی نشست

پاکستان پیپلزپارٹی نے ملتان میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو تقریبات کا انعقاد کیا۔ ایک دن سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افراد اور بلاول بھٹو کے درمیان ملکی و علاقائی اور عالمی صورتحال پر مکالمہ کی نشست ہوئی دوسرے دن بلاول بھٹو سے اخبارات کے ایڈیٹرز، کالم نگاروں اور اہل دانش کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اس نشست میں بھی تفصیل کے ساتھ مختلف موضوعات پر کئے گئے سوالات کا پی پی پی کے چیئرمین نے بھرپور انداز میں مفصل جواب دیا۔

ہمارے برادر عزیز میر احمد کامران مگسی، خواجہ رضوان عالم اورڈاکٹر جاوید صدیقی مُصر تھے کہ ان دونوں نشستوں میں لازماً شرکت کی جائے۔ تعمیل حکم میں بیماری کے باوجود طویل تھکادینے والے سفر کےبعد جنم شہر میں پی پی پی کی ان دونوں تقریبات میں شرکت کو یقینی بنایا۔

4ستمبر کی شام بلاول ہاوس ملتان میں منعقدہ مکالماتی نشست میں مختصر وقت میں عرض کیا کہ "پیپلزپارٹی جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ رکھتی ہے۔ آج کے حالات میں وہ ملکی ہوں یا علاقائی، پاکستان کے عوام پی پی پی کے جمہوری جدوجہد سے عبارت ماضی کی بدولت یہ توقع کرتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دوسرے مسائل کے حل کیلئے پیپلزپارٹی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے۔

ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں کے بعد پاکستان میں وہ شدت پسند قوتیں نہ صرف سر اٹھارہی ہیں بلکہ ان کے بیانات اور تقاریر سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک میں ایک بار پھر ویسے حالات پیدا کرنے کے درپے ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں اس ملک کے 70ہزار سے زائد شہری موت کا رزق بن گئے"۔

یہ بھی عرض کیا کہ "ہمارے لئے یہ امر حیرانی کا باعث ہے کہ پیپلزپارٹی جیسی روشن خیال جماعت کے کارکنوں اور ہمدردوں کا ایک بڑا حلقہ سوشل میڈیا پر نہ صرف مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کرتاہے بلکہ ان کا رویہ بھی ایساہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے پی پی پی لبرل ترقی پسند سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک شدت پسند مذہبی جماعت ہے۔ ان حالات میں بہت ضروری ہوگیاہے کہ پیپلزپارٹی اپنے اسٹڈی سرکلز کو ازسرنو منظم کرے اور اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کی فکری تربیت کو یقینی بنائے تاکہ سماج اور سوشل میڈیا پران کا برتاو سیاسی کارکن کا ہو"۔

یہ بھی عرض کیا کہ "یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ سیاسی کارکن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یا وہ لامذہب ہوتے ہیں، اصولی طور پر سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری نظام کے استحکام اور سماجی وحدت، دستور و قانون کی سربلندی کو اولیت دیتی ہیں جبکہ مذہبی جماعتیں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ہم خیالوں کو منظم کرتی ہیں۔ صاف سیدھے انداز میں یہ کہ سیاسی جماعت کا کام لوگوں کو جوڑنا ہوتا ہے سو ہم پیپلزپارٹی سے یہ توقع کرتے ہیں کہ اس کے کارکن روشن خیالی کو پروان چڑھائیں۔ اپنی توانائیاں عوامی جمہوریت کے قیام اور دستور کی پاسداری کے لئے بروئے کار لائیں۔"

شدت پسندی سے زخم خوردہ پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اپنے تاسیسی منشور اور عوام دوست سیاست کی بنیاد پر رائے عامہ کو منظم کرے گی تاکہ انتہا پسندوں کے لگائے زخم بھریں اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی ہو کہ اس کے کارکن غیرجمہوری قوتوں کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو متوجہ کرتے ہوئے یہ بھی عرض کیا کہ آپ کی پارٹی کا سرائیکی وسیب کے لئے صوبائی یونٹ (تنظیمی ڈھانچہ) خوش آئند ہے مگر سرائیکی وسیب کے عوام اس امر کے خواہش مند ہیں کہ اس کا نام پاکستان پیپلزپارٹی سرائیکی وسیب ہو۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ دیگر صوبائی یونٹوں کی شناخت ان کے صوبوں کے نام پر ہی ہے۔

اس پر دو آراء نہیں کہ پیپلزپارٹی نے سرائیکی قومی سوال سے جنم لینے والے الگ صوبے کے مطالبہ کو عوامی سطح سے اٹھاکر منتخب ایوانوں میں پہنچایا۔ پی پی پی کے پچھلے دور میں سرائیکی صوبے کے لئے پارلیمانی کمیشن بھی بنا اس کمیشن کی تشکیل اور سفارشات پر ہمارے (سرائیکیوں کے) تحفظات کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا پیپلزپارٹی کے بس میں تھا اس نے کر دیکھایا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پیپلزپارٹی سرائیکی وسیب کے لوگوں کی بات کشادہ دلی سے سنے اور جمہوری جماعت کے طور پر مکالمے کو رواج دے تاکہ وسیب کے لوگوں کے حقیقی جذبات سے آگاہ ہوسکے۔

پہلے دن منعقدہ مکالمہ کی نشست میں پیپلزپارٹی نے سرائیکی وسیب یا یوں کہہ لیجئے کہ قوم پرستوں کے موقف اور تحفظات کو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کے سامنے رکھنے کامجھ طالب علم کو موقع دیا۔ ایک جمہوری جماعت کا بنیادی کام یہی ہوتا ہے کہ وہ رائے عامہ کی بات توجہ سے سنے اور پالیسیاں وضع کرے۔ کچھ دوستوں کی ناراضگی اور طنز بھرے سستے جملوں کا دکھ اپنی جگہ لیکن میری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں ہوں یا قوم پرست جماعتیں، دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔

قوم پرستوں کو اپنے موقف کے قریب سیاسی جماعتوں سے مکالمے کا دروازہ بند کرکے نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں اور خصوصاً پیپلزپارٹی کو بھی قوم پرستوں بالخصوص سرائیکی قوم پرستوں کو اپنا دشمن نمبرون نہیں سمجھنا چاہیے۔ سیاسی جدوجہد میں پیپلزپارٹی نے دیگر اقوام کے قوم پرستوں سے ہمیشہ مشاورت کی۔ بعض اتحادوں میں بھی ان کے ساتھ رہی ہے، یہ بجا ہے کہ سرائیکی قوم پرست آج پارلیمانی سیاست یا یوں کہہ لیجئے کہ عوامی پذیرائی میں وہ مقام نہیں رکھتے کہ وہ اپنی حیثیت منواسکیں لیکن وہ اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ان کی بات نہ سنی جائے۔

پیپلزپارٹی چونکہ ایک لبرل جمہوری جماعت ہونے کی مدعی ہے اس لئے اگر شکوے شکایات کے دفتر کھلتے بھی ہیں تو اس کا برا ہرگز نہیں منایاجانا چاہیے۔ آخری بات اپنے قوم پرست دوستوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو کام مروت، محبت اور مکالمے سے ممکن ہو ضروری نہیں اسے گالی اور طعنے دے کر بگاڑا جائے۔ یقیناً قوم پرستوں کو کسی بھی سیاسی جماعت سے معاملہ کرنے کا حق ہے البتہ انہیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ان کے قومی سوال اور صوبے کے مطالبے کے قریب کون کھڑا ہے۔