1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. ذوالفقار علی بھٹو بنام بلاول

ذوالفقار علی بھٹو بنام بلاول

ڈیئر بلاول، جیتے رہو!

گزشتہ کچھ عرصہ سے تمہیں خط لکھنے کے لئے سوچ رہا تھا پھر تمہاری مصروفیات دیکھ کر نہ لکھا۔ کل شام تمہاری ماما آئیں تو پاکستانی سیاست، پیپلزپارٹی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ پنکی دیر سے رخصت ہوئی جتنی دیر بھی وہ ہمارے پاس رہی تمہارا اور تمہاری بہنوں کا ذکر کرتی رہی۔ اولاد والدین کے لئے ایسی ہی نعمت ہے۔ مائیں تو مرنے کے بعد بھی اولاد کے لئے ہی سوچتی اور دعائیں کرتی رہتی ہیں۔

تم نے اچھا کیا کورونا وبا کی وجہ سے میری برسی کا اجتماع ملتوی کردیا۔ کچھ دیر قبل مجھے علم ہوا کہ پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ اجلاس منعقد کر ہی لیتے تو اچھا تھا۔ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں اور خصوصاً اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں جو اختلافات ہیں ان پر سنٹرل کمیٹی کو غور کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح یہ بھی بہت ضروری تھا کہ سنٹرل کمیٹی پارٹی کے ان بعض رہنماوں سے پوچھتی کہ اگر انہیں پارٹی کے کسی فیصلے پر اختلاف تھا تو اس پر پارٹی کے اندر بات کرتے۔ ضرورت سے زیادہ باتیں یا ہیرو بننے کا شوق پورا کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر پارٹی کے بارے میں ہونے والے جعلی پروپیگنڈے کو خودستائی کا رزق بناتے ہیں تو وہ کس کی خدمت کرتے ہیں؟

ڈیئر بلاول!

میری خواہش ہے کہ تم پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر عوامی سطح پر منظم کرو۔ طلباء، مزدوروں اور کسانوں کے لئے پارٹی کی ذیلی تنظیمیں فعال کراو۔ پارٹی کی نچلی سطح پر تنظیم سازی بھی بہت ضروری ہے۔ میں نے پیپلزپارٹی سماج کے کچلے ہوئے طبقات کی نمائندگی کے لئے بنائی تھی یہ درست ہے کہ الیکٹیبلز سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتے ہیں مگر سیاسی جماعتیں جدوجہد کے عمل میں اپنا بھرم نظریاتی کارکنوں سے قائم رکھتی ہیں۔

پیپلزپارٹی کوایک بار پھر فعال اور عوامی جماعت بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی ملائیت، سامراجی عزائم اور اسٹیبلشمنٹ کی آئینی حدود سے تجاوز کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھے اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف عوامی شعور کی بیداری میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہاں میں تمہیں ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ حالیہ دنوں میں پیپلزپارٹی کے ساتھیوں اور ہمدردوں نے سندھی ادیب امر جلیل کے خلاف ملاگردی کے مقابلہ میں امر جلیل کا ساتھ دے کر اچھا کیا۔

کوئی ادیب یا دانشور اپنی ذاتی محرومیوں یا کج کے باعث سیاسی قیادتوں کے بارے میں سطحی خیالات تکرار کے ساتھ بھی پیش کرتا رہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ اگر اس کی کسی بات یا تحریر پر انتہا پسند اس کی جان کے درپے ہوجائیں تو اسے انتہا پسندوں کا تر نوالہ بننے دیا جائے۔ سیاسی جماعت کا اصل فرض یہی ہوتا ہے کہ وہ ناقدین ہی نہیں مخالفوں اور حاسدوں کا بھی آڑے وقت میں شعوری طور پر ساتھ دے۔

ڈیئر بلاول!

پیپلزپارٹی کو کسی تاخیر کے بغیر پڑوسی ممالک سے تعلقات میں توازن رکھنے اور عالمی سامراج کے کسی کھیل کا حصہ نہ بننے کے لئے حکومت اور بالادست اسٹیبلشمنٹ کو متوجہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہیے۔ پارٹی کا فرض ہے کہ وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر واضح کرے کہ دھڑے بندیوں کے کھیل سے جان چھڑاکر پاکستان اور اس میں آباد لوگوں کے بارے میں سوچیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی خوشنودی پر نہیں ملک اور عوام کے مفادات کے پیش نظر ہو۔

پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ہی غیرترقیاتی اخراجات میں کمی لاسکتے ہیں۔ ملکی وسائل عوام پر صرف کرکے ہی ان کا معیار زندگی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی آبادی کے بے ہنگم پھیلاو سے پیدا ہونے والے مسائل پر عوام کو متوجہ کرنے کے لئے رابطہ عوام مہم شروع کرے لوگوں کو بتائے کے آبادی میں پھیلاو سے جہاں وسائل کم ہورہے ہیں وہیں دوسرے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ پارٹی زرعی رقبوں پر بڑی ہاوسنگ سوسائٹیوں کی بجائے اعلیٰ معیار کے فلیٹس سسٹم کی افادیت اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ڈیئر بلاول!

بلاشبہ اسلام ہمارا دین ہے مگر دین پر عمل فرد کا انفرادی معاملہ ہے، ملا یا ریاست کو فرد کے نجی معاملات میں مداخلت کا حق بالکل نہیں دیا جانا چاہیے اپنے مشاہدات اور تجربوں کی روشنی میں تمہیں یہ مشورہ دوں گا کہ رائے عامہ کو سیکولر ریاست اور نظام کے لئے بیدار کرو اور انہیں بتاو کہ مذہبی تنگ نظری سے جو نقصان ہوگئے ان کا مداوا اسی صورت ممکن ہے کہ مستقبل میں ماضی جیسے تجربات سے گریز کیا جائے۔ پیپلزپارٹی اپنے مزاج اور تاسیسی نظریات کی بدولت بائیں بازو کی پارٹی ہے۔ حال اور مستقبل کی سیاست کے لئے دائیں بازو کی بجائے بائیں بازو کی پارٹیوں کے وسیع تر اتحاد کے لئے عملی کوشش کرو۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ اتحادی سیاست میں کبھی بھی اپنے نظریات سے دستبردار نہیں ہوا جاتا۔ اسی طرح یہ بھی کہ مخالفین کی بدزبانیوں اور بھونڈی الزام تراشی کے جواب میں ان کی سطح پر اتر کر جواب دینے کی بجائے اپنے ظرف اور تربیت کے مطابق خود بھی بات کرو اور ساتھیوں سے بھی کہو کہ وہ باوقار انداز میں جواب دیا کریں۔

ڈیئر بلاول!

یہ بات کبھی نہ بھولنا کہ جو لوگ آج پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں وہ پارٹی کا ورثہ ہیں پارٹی کو نئی نسل میں تمہیں متعارف کروانا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اردگرد کے حالات، داخلی مسائل اور روزمرہ کے عمومی مسائل پر تمہارا موقف سادہ اور دوٹوک ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میری ان معروضات پر غور کرکے حکمت عملی وضع کرو گے۔

بختاور اور آصفہ کو پیار

والسلام

ذوالفقار علی بھٹو