1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. ایک ٹھُس، ایک ٹھَس اور بس

ایک ٹھُس، ایک ٹھَس اور بس

ایک ٹھُس، ایک ٹھَس اور بس
جیل چودہ برس اور بس

ہم پہ قرضہ ہے دو سو ارب
ہم نے دینے ہیں دس اور بس

کیرئیر، مرد - پچیس سال
ہیروئین دس برس اور بس

خوف دل میں رہا جاگزیں
اس نے چڑھنی ہے بس اور بس

خاک انگریز حاکم رہے
ڈیڑھ دو سو برس اور بس

اس نے پوچھا محبت تو ہے؟
ہم نے کی بیش و پس اور بس

آگیا ایک چھتّے میں ہاتھ
اس میں صد ھا مگس اور بس

ایک ویگن کی چھت سے گرا
اس پہ گزری ہے بس اور بس

جامع مسجد کے گولا کباب
اس پہ لیموں کا رس اور بس

چاہئیے اور کچھ بھی نہیں
میری دنیا میں بس، اور بس

قوم کے سب مصائب کا حل
چار چھ کش چرس اور بس

ساری جدوجہد، مخلصی
تخت پر دسترس، اور بس

شاہِ جم کا، حسیں مقبرہ
ایک گنبد، کلس اور بس

جاں نکلتی تھی اس قرب میں
بانہہ ہوتی تھی مس اور بس

آکسیجن؟ مسیحا! نہیں
وہ رہے ہم نفس اور بس

دو گھڑی لذّتِ خواب ہے
اک صدائے جرس۔ اور بس

چاہئیے یار کے باغ میں
ایک کنجِ قفس اور بس