1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. تم کہاں جاو گے ، ہم کہاں جائیں گے

تم کہاں جاو گے ، ہم کہاں جائیں گے

چھوڑ جانے کی دھمکی نہیں کارگر، تم کہاں جاو گے، ہم کہاں جائیں گے
اس پہ پہلے ہی مرتا ہے سارا نگر، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

ہم نے ملتان جانا تھا جا نہ سکے، تم نے لاہور آنا تھا آ نہ سکے
یوں محبت میں آرام سے بیٹھ کر، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

ہم نے الفت میں راتوں کو تارے گنے، تم سوا سات آرام سے سو گئے
ایک وحشت کی تصویر، اک بے خبر، تم کہاں جاو گے، ہم کہاں جائیں گے

ہم کو دنیا میں خوباں نے دھوکا دیا، اس کو جنت میں حوروں نے ٹرخا دیا
شیخ عُقْبیٰ میں برباد اور ہم ادھر، تم کہاں جاو گے، ہم کہاں جائیں گے

قیس پاوں سے سر تک اٹا ریت میں، اور رانجھا کسی بھینس کے کھیت میں
جب ملے تو ہوئی گفتگو مختصر، تم کہاں جاو گے ہم کہاں جائیں گے

یہ محبت جو کالج کی معراج ہے، اس کا حاصل مری جاں فقط آج ہے
ہم نجانے کدھر اور تم پی کے گھر، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

کل رقیبوں کا ناگاہ جلسہ ہوا، دیر تک میرے بارے میں سوچا گیا
ہوگئے شعر اس کے اگر کارگر، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

شہر کے گنجلک راستوں میں بنا، ایک پل دوسرے سے یوں گویا ہوا
کوئی نقشہ دکھاو ہمیں ڈھونڈ کر، تم کہاں جاو گے، ہم کہاں جائیں گے

قافلے میں سنا ہے کہ پانی نہیں، لقمہء جو کی امداد آنی نہیں
اور دست و گریباں ہوئے راہبر، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

یہ جو ملت وغیرہ کی تعمیر ہے، اس میں لگتا ہے صدیوں کی تاخیر ہے
اور تاوقت، یورپ، عرب یا قطر، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

رند دوزخ میں شاید چلے جائیں گے اور زاہد کو فردوس مل جائے گی
یہ جو ہم تم ہیں حامد، ادھر نہ ادھر، تم کہاں جاو گے، ہم کہاں جائیں گے