1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. کبھی ملو گے نہیں، بار بار کہتے ہو

کبھی ملو گے نہیں، بار بار کہتے ہو

کبھی ملو گے نہیں، بار بار کہتے ہو
ہمیں گماں ہے مگر، بے قرار رہتے ہو

کبھی ملو گے نہیں، ناز سے کہا ہوگا
خبر تو ہوگی، مرے دل کا حال کیا ہوگا

کبھی ملو گے نہیں، یہ خیال کیوں آیا
یہ میرے بخت کو، ایسا زوال کیوں آیا

کبھی ملو گے نہیں، شاعری کا کیا ہوگا
مصوری کا، فنِ آذری کا کیا ہوگا

کبھی ملو گے نہیں، چاندنی پریشاں ہے
درخت چپ ہیں، ستاروں کی آنکھ حیراں ہے

کبھی ملو گے نہیں، زندگی بہت کم ہے
یہاں پہ رنج زیادہ، نشاط کم کم ہے

کبھی ملو گے نہیں، یار، یوں نہیں کہتے
گنوا کے عشق تو محبوب خوش نہیں رہتے

کبھی ملو گے نہیں، بات اتنی سادہ ہے
کہ عشق کارِ خرد کب ہے؟ بے ارادہ ہے

کبھی ملو گے نہیں، خیر یہ بھی دیکھیں گے
گزار ڈالیں گے جیون اداس رہ لیں گے

کبھی ملو گے نہیں، کیا کہیں! چلے جاو
تمہاری راہ تو دیکھیں گے، تم بھلے جاو

کبھی ملو گے نہیں؟ ہو سکے تو مل جاو
ہماری آنکھ میں اترو، بطرفِ دل جاو