1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. گلی کے موڑ پہ رکھا، دیا، کسی کا نہیں

گلی کے موڑ پہ رکھا، دیا، کسی کا نہیں

گلی کے موڑ پہ رکھا، دیا، کسی کا نہیں
ہوا جو سب کا، وہ آخر رہا کسی کا نہیں

کسے دوام یہاں ہے؟ یہ ہم، یہ تم، کیا ہیں؟
کہ عشق ختم کریں، فیصلہ کسی کا نہیں

یہ حسنِ ماہ، یہ عہدِ رواں، یہ پارینہ
کہ لاکھ عذر کریں، آئینہ کسی کا نہیں

قتیلِ عشق کو بس خاک ہے جہانِ دگر
رہینِ چشمِ بتِ سرما سا کسی کا نہیں

جو چند لاکھ میں بخشش ہوئی ہے قاتل کی
یہ بے بسی کا بیاں، خوں بہا کسی کا نہیں

اجارہ دار بنے جس کا نام بیچتے ہو
وہ بے نیازِ ازل، یوں خدا، کسی کا نہیں

کہ ہم نہیں تھے، ابھی ہیں، کبھی نہیں ہوں گے
ثبات و مرگ کا یہ دائرہ کسی کا نہیں

سبھی کا ذکر ترقی میں، کامیابی میں
شکستگی کا مگر حادثہ، کسی کا نہیں

وطن کے نام کا، اک خطہءِ زمین، مگر
وہ خستگی ہے کہ جیسے یہ تھا، کسی کا نہیں

یہ تاج و تخت وغیرہ کہ جس پہ مرتے ہو
یہ تاج و تخت وغیرہ ہوا کسی کا نہیں

امیرِشہر کی، یزداں کی، یارِ دلبر کی
یہی طلب کہ کہے مجھ سوا کسی کا نہیں