1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. جس روز کہہ دیا تھا، تمہاری ہے زندگی

جس روز کہہ دیا تھا، تمہاری ہے زندگی

جس روز کہہ دیا تھا، "تمہاری ہے زندگی"
کب؟ اس کے بعد، ہم نے گزاری ہے زندگی!

تا خاک میں ملا دے، اسے وقت کا غبار
اس واسطے زمیں پہ اتاری ہے زندگی

اک ہجر تھا کہ جس میں طلب جاگتی رہی
اک وصل میں وجود نے ہاری ہے زندگی

اک خوف نے بسائے کئی، متصل مکان
اک دشت میں جنوں نے گزاری ہے زندگی

حاصل کے بعد، جامِ تمنا؟ یہ آرزو؟
جوں میکدے کی تشنہ خماری ہے زندگی

اک سازِ کن و صوتِ قیامت کے درمیاں
اک مختصر سا گیت، ہماری ہے زندگی

اک وہمِ ہست، جس نے بگاڑے تمام کام
اک نیستی کے سچ نے سنواری ہے زندگی

اے یارِ من بیا کہ لبوں پر ورود ہو
نکہت ہے، اور بادِ بہاری ہے، زندگی