اے زمینِ کربلا اے آسمانِ کربلا
تجھ کو یاد آتے تو ہوں گے رفتگانِ کربلا
کر رہے ہیں ذکر اُن کے حق کو پہچانے بغیر
سلسلے باطل کے اور زعمِ بیانِ کربلا
اپنے اپنے زاویے سے اپنے اپنے ڈھنگ سے
ایک عالم لکھ رہا ہے داستانِ کربلا
مصحفِ ناطق تلاوت کر رہا تھا وقتِ عصر
سُن رہے تھے خاک پر آسودگانِ کربلا
ٹھوکروں میں ہے شکوہ و شوکتِ دربارِ شام
کوئی حُر کے دل سے پوچھے عِزّ و شانِ کربلا
استغاثے کی صدا آئی ہے اُٹھو افتخارؔ!
استغاثہ، جس میں شامل ہے اذانِ کربلا