1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. عَبْدُہُ (2)

عَبْدُہُ (2)

تو اس محبت پہ کون قربان نہ جائے، وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ۔

اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔

حضرت عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں رسولِ کریم ﷺ نے قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا پڑھی "رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّه، مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ" (ابراہیم: 36)

اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔

اور حضرت عیسیٰؑ کی یہ دعا پڑھی: "اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ "(مائدہ: 118)

"اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔ "

تو ولیل و لضحیٰ کی شان والے، پیارے کریم آقا جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ نے دونوں دستِ اقدس اُٹھا کر اُمت کے حق میں رو کر دُعا فرمائی اور عرض کیا "اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ" اے اللہ میری امت میری امت۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریلؑ کو حکم دیا کہ تم میرے حبیب ﷺ کے پاس جاؤ، تمہارا رب خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے؟ حضرت جبریل امینؑ نے حکمِ خداوندی کے مطابق حاضر ہو کر دریافت کیا تو سرکارِ دو عالَم ﷺ نے انہیں تمام حال بتایا اور غمِ اُمت کا اظہار کیا۔

حضرت جبریل امینؑ نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے حبیب ﷺ یہ فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریلؑ کو حکم دیا کہ جاؤ اور میرے حبیب ﷺ سے کہو کہ ہم آپ (ﷺ) کو آپ (ﷺ) کی اُمت کے بارے میں عنقریب راضی کریں گے اور آپ (ﷺ) کے قلب مبارک کو رنجیدہ نہ ہونے دیں گے۔ (مسلم)

علمائے کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ تب تک راضی نہیں ہونگے جب تک سارے کے سارے امتی جنت میں داخل نہ ہو جائیں۔ اسی کو کہتے ہیں"عبدہ" کہ سارے جہان والے ربِ کائنات کی رضا چاہتے ہیں اور بخشش کے طالب ہیں، وہاں ربِ کائنات سوہنے محبوب، والضحیٰ کے چہرے کریم آقا ﷺ سے پوچھتا ہے اور کچھ اور کچھ، کیونکہ ساری کثرت پاتے یہ ہیں۔

ساری امت عبد ہے اور ساری کی ساری کو عبدہ کی ضرورت و حاجت ہے۔

عبد تو روزِ محشر ہاتھ باندھے عجز و انکساری کا پیکر ہونگے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ کی خدمت میں بکری کی دستی کا گوشت پیش کیا گیا یہ آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھا۔ آپ ﷺ اس میں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے اور فرمایا: میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیوں فرمائے گا؟ تاکہ دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا اپنی آواز (بیک وقت سب کو) سنا سکے اور سورج ان کے بالکل نزدیک آ جائے گا۔

اس وقت بعض لوگ کہیں گے: کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس حال میں ہو، کس مصیبت میں پھنس گئے ہو؟ ایسے شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے ربّ کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ پس بعض لوگ کہیں گے کہ تم سب کے باپ حضرت آدمؑ ہیں۔ پس وہ اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے سیدنا آدمؑ! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو اُنہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں سکونت بخشی۔

کیا آپؑ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مشکل صورتحال میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آ لیا ہے؟ حضرت آدمؑ فرمائیں گے: میرے رب نے آج ایسے غضب کا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا غضب نہ پہلے فرمایا، نہ آئندہ فرمائے گا۔ مجھے اُس نے ایک درخت (کا پھل کھانے) سے منع فرمایا تھا تو مجھ سے اُس کے حکم کی تعمیل میں لغزش سرزد ہوئی لہٰذا مجھے اپنی جان کی فکر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جاو۔

تم حضرت نوحؑ کے پاس چلے جاؤ۔ لوگ حضرت نوحؑ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے سیدنا نوحؑ! آپ اہلِ زمین کے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام "عبدًا شکورًا" (یعنی شکر گزار بندہ) رکھا ہے۔ کیا آپؑ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا آپؑ دیکھتے نہیں ہم کس مشکل صورتحال میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آ لیا ہے؟ کیا آپؑ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ وہ فرمائیں گے: میرے رب نے آج غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ پہلے ایسا اظہار فرمایا تھا اور نہ آئندہ ایسا اظہار فرمائے گا۔

مجھے خود اپنی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی پڑی ہے۔ (باقی حدیث مختصر کرکے فرمایا:) سو تم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں عرش کے نیچے سجدہ کروں گا اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمایا جائے گا: یا محمد ﷺ! اپنا سر (مبارک) اُٹھائیں اور شفاعت کریں آپ ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ " یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

ایک اور روایت ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے تو وہ حضرت آدمؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: آپ ﷺ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیمؑ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔ وہ حضرت ابراہیمؑ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: یہ (شفاعتِ کبریٰ) میرا منصب نہیں تم حضرت موسیٰؑ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔

پس وہ حضرت موسیٰ کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اس (شفاعتِ کبریٰ کے) لائق نہیں تم حضرت عیسیٰؑ کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اُس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰؑ کے پاس جائیں گے تو وہ فرمائیں گے: میں اِس شفاعت (کبریٰ) کے قابل نہیں تم محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس جاؤ۔ پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے ربّ سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کروں گا وہ کلمات اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔

پس میں اِن محامد سے ﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ سو ﷲ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: اے محمد ﷺ! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیں، اپنی بات کہیں، آپ ﷺ کی بات سنی جائے گی، مانگیں آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت، پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے ہر ایسے اُمتی کو نکال لیں جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو۔

پس میں جا کر یہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُن محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثناء بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد ﷺ! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے! آپ ﷺ کو سنا جائے گا، مانگیے آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ ﷺکی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں (ﷺ)عرض کروں گا: اے میرے ربّ! میری اُمت، میری اُمت! پس فرمایا جائے گا: جائیں اور جہنم سے اُسے بھی نکال لیں جس کے دل میں ذرّے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔

پس میں جا کر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر اُنہی محامد کے ساتھ اُس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اُس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: اے محمد ﷺ! اپنا سرِ (انور) اُٹھائیے اور کہیے، آپ ﷺ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب! میری اُمت، میری اُمت، پس اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: جائیں اور اُسے بھی جہنم سے نکال لیں جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔

پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گا۔ (حضرت حسن بصری نے اس میں اتنا اضافہ کیا کہ) حضور ﷺ نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کروں گا پھر اُس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد ﷺ! اپنا سر اُٹھائیں اور کہیں آپ ﷺ کو سنا جائے گا، مانگیں آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں آپ ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں اُنہیں ضرور جہنم سے نکالوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ کہا ہے۔