1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. شبِِ برات اور ایک غلط فہمی (1)

شبِِ برات اور ایک غلط فہمی (1)

لیلة المبارکہ فی عشرة الاخرہ۔

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده۔

اصل دین خلوصِ دل اور نیت کا نام ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ حدیث الباب کے طور پر حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں۔ "دین اللہ تعالیٰ، اسکے رسول، سربراہانِ امت اور عوام الناس کیلئے دل میں خلوص رکھنے کا نام ہے۔ عن أبي رقية تميم بن أوس الداريؓ أن النبي ﷺ قال: «الدين النصيحة» قلنا: لمن؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم۔

[صحيح]۔ [رواه مسلم]

ابو رقیہ تمیم بن اوس الداریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے پوچھا کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے امراء (حکمرانوں) اور عام لوگوں کے لیے۔ عن عدي بن عميرة الكنديؓ مرفوعاً: «من اسْتَعْمَلْنَاهُ منكم على عمل، فكَتَمَنَا مِخْيَطًا فما فوقه، كان غُلُولا يأتي به يوم القيامة»۔ فقام إليه رجلٌ أسودُ من الأنصار، كأني أنظر إليه، فقال: يا رسول الله، اقبل عني عَمَلَكَ، قال: «وما لك؟ » قال: سمعتك تقول كذا وكذا، قال: «وأنا أقوله الآن: من اسْتَعْمَلْنَاهُ على عمل فلْيَجِيْء بقليله وكثيره، فما أُوتِيَ منه أَخَذَ، وما نهي عنه انْتَهَى»۔

[صحيح]۔ [رواه مسلم]

عدی بن عمیرہ کندیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے جسے ہم کسی کام کی ذمہ داری سونپیں، پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کوئی کم تر چیز چھپائے، تو وہ خیانت ہوگی، جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہوگا"۔ یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری، جنہیں گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں، کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ نے مجھے جو کام سونپا تھا، اس سے مجھے مستعفی ہونے کی اجازت دیجیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو ایسے فرماتے ہوئے جو سن لیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، میں اب اسے پھر کہتا ہوں کہ جسے ہم کسی کام کی ذمے داری سونپیں، وہ کم یا زیادہ سب کچھ لے کر آئے۔ جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے منع کر دیا جائے اس سے رک جائے"۔

خلاصةً دین، خلوص نیت، محبت، ایثار، قربانی، احکامات خدا پر عملدرآمد، سنت کی پیروی، اور جس جس کام سے روکا جائے اور جس جس کام کا حکم دیا جائے، اسے من و عن سچے دل سے مان لینے کا نام دین ہے۔ دینِ حنیف پر پورا پورا عمل کرنا اور پورا پورا مکمل اور جامع مان لینا ہی اسلام کی مکمل اور جامع تشریح ہے، چنانچہ جو قوائد و ضابط شریعت نے وضع کیے ہیں ان پر کاربند رہنا ہی نجات اور کامیابی کی ضمانت ہے۔

قرآن کریم فرقانِ حمید میں نافذ شدہ احکامات کو ماننا، متشابیہات کی بحث سے دور رہنا، تفاسیرِ قرآن کو قرآن سے اخذ کرنا ہی قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے، کوئی ذی شعور مسلمان قرآنی احکامات کا انکار نہیں کر سکتا ہاں البتہ عمل کرنا یا نہ کرنا ایک علیحدہ امر ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰة و حج فرض ہیں لیکن ان کا ادا کرنا یا نہ کرنا دو الگ پہلو ہیں، کوئی یہ نہیں کہتا کہ نماز و روزہ فرض نہیں، بلکہ عمل میں کوتاہی کرتا ہے۔

تو ایسی صورتحال میں وہ فاسق و فاجر کی فہرست میں آ جائے گا لیکن کافر ڈکلیئر نہیں ہوگا، لہٰذہ قرآنی احکامات کو ماننا اور ان پر عمل کرنا دو مختلف پہلو ہیں، لیکن اس زمانہء حال اور نفسا نفسی کے عالم میں جہاں دین پر عمل کرنا مشکل کر دیا گیا ہے وہاں اصل دین اور احکاماتِ قرآنی میں معنوی تحریف عام رائج ہے اور اس میں عالم و مفسر اور خوب پڑھے لکھے افراد بھی تحقیق کی کمی کے باعث خطا پر قائم ہیں چنانچہ بہت سی محافل و اجتماعات اور مدارس میں قرآن کی معنوی تحریف دیکھنے میں آئی ہے۔

خلیل بن احمد الفراہیدی لکھتے ہیں:

والتحريف في القرآن تغيير الكلمة عن معناها۔ (العين: 4/210)

قرآنِ کریم میں تحریف کا مطلب یہ ہے کہ کلمات کے معانی تبدیل کر دینا۔

شریعت میں تحریف جیسی خصلتِ بد اور جرمِ عظیم میں یہودی بہ کثرت مبتلا تھے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس کا بالخصوص ذکر ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 75]

ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو کلام اللہ کو سن کر، سمجھ کر، علم رکھنے کے باوجود بدل ڈالتے ہیں۔

لہٰذہ معنوی تحریف مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہو سکتا لیکن چونکہ عوام و خاص میں تدبر اور تحقیق کی کمی ہے اسی لیے سنی سنائی یا لکھی لکھائی باتوں کو من و عن مان لینا ہی قرآن کی معنوی تحریف کا سبب بنتا ہے، کائنات میں سب سے سچی بات قرآن اور خاتم النبین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے اس کے علاوہ کسی عالم، کسی مفسر، کسی مجتہد، کسی فلاسفر کا قول و فعل غلط ہو سکتا ہے۔

لہٰذہ سب سے سچی بات رسول اللہ ﷺ کی ہے اور سب سے سچا کلام فرقان حمید ہے، اور اگر کوئی بات کلامِ مجید اور فرمانِ رسول ﷺ سے ٹکرائے وہ مردود اور ناقابلِ عمل ہے۔ اسی اصول کو ذہن نشین رکھتے ہوئے، امورِ شرعیہ لاگو کیے جاتے ہیں ہاں البتہ اگر کوئی مسئلہ قرآن و سنت سے اخذ نہ کیا جا سکے (نوٹ: قرآن میں ہر خشک و تر کا ذکر ہے لیکن بعض اوقات کم علمی کی وجہ سے مسائل کا حل تلاش کرنا مشکل عمل ہوتا ہے) تو پھر شریعتِ اسلامیہ نے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔

چنانچہ حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ کے اس سوال پر کہ اگر تمہیں قرآن و سنت میں درپیش کسی مسئلہ کا حل نہ ملے تو کیا کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا تھا کہ میں ایسی صورت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور غور و فکرکے ذریعہ کسی نتیجہ تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس جواب پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے خوشی اور اطمینان کا اظہار فرمایا:

الْحَمْدُ لِله الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ ﷲِ (ﷺ) لِمَا یَرْضَي رَسُولُ الله(ﷺ)

خدا کا شکر ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے شخص کو اس امر کی توفیق بخشی کہ جس سے اللہ تعالیٰ کا رسول (ﷺ) راضی ہو۔

رزلٹنٹلی (نتیجتاََ) اگر کوئی بات قرآن و سنت سے ٹکرائے اس کو چھوڑنا ہی عقلمندی کا تقاضہ ہے اسی لیے حکم ہوا کہ جو چیز رسول اللہ ﷺ دیں اس کو لے لینا چاہیے اور جس سے منع کریں اس کو چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن و سنت ہی امتِ مسلمہ کہ لیے پہلی اور آخری حجت ہے، لیکن آج کے دورِ جدیدہ میں بہت سے مسائل و نظریات نصِ قرآنی کے خلاف ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علماء و عوام الناس کی اکثریت شعبان کی پندرہویں رات کے وہ فضائل بیان کرتے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں اور جتنی بھی روایات اس ضمن میں ملتی ہیں وہ یا تو ضعیف، موزوع یا منقطع کی جد پر پہنچی ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اگر کوئی بات قرآن کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے پھر چاہے اس کے برعکس کوئی مشہور حدیث ہی موجود کیوں نہ ہو۔

اب چونکہ جنابِ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے سارے کے سارے اعمال، آپ ﷺ کہی ساری کی ساری سنتیں حد درجہ صحیح اور عین شریعت ہوتی ہیں کیونکہ آپ ﷺ کوئی بات قرآن کے خلاف کر ہی نہیں سکتے کیونکہ قرآن کا بیان ہے کہ میرا محبوب ﷺ جو بھی بولتا ہے وہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے (إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے)، اسی لیے اگر کوئی روایت یا حدیث نصِ قرآنی سے ٹکرائے وہ حدیث یا روایت باطل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات آپ ﷺ نے کہی ہی نہیں ہوتی یا سننے یا نقل کرنے والے نے اس کا مفہوم کچھ کا کچھ سمجھ لیا۔

اسی طرح شعبان کی پندرہویں رات کے بارے میں مشہور غلط نظریات بیان کیے جاتے ہیں جو ہر خاص و عام میں حد درجہ مشہور ہیں اور عوام ان نظریات پر ایسے یقین رکھتی ہے جیسا یہ قرآن پر، وجہ یہی ہے کہ یہ اس قدر مشہور و نافذ ہیں کہ عوام ان کے خلاف سننا ہی نہیں چاہتی اس لیے بندہ ناچیز نے سوچا کہ ان مسائل پر کچھ لکھا جائے چنانچہ شعبان کی پندرہویں رات کے متعلق مشہور غلط نظریات اور ان کا رد پیشِ خدمت ہے اور تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو ایک دفعہ کھلے دل سے ضرور پڑٍھیے۔

سوال نمبر 1: شعبان کی پندرہویں رات جسے شبِ برات کہا جاتا ہے قرآن سے ثابت ہے جس کے لیے سورة دخان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

جواب: قرآن رب کریم کا کلام ہے اور ایسا شاندار کلام ہے کہ یہ اپنی تفسیر خود کرتا ہے لہٰذہ کسی اور کی رائے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ سورہ دخان میں ارشاد ربانی ہے۔

حمٓ (حٰم) وَٱلكِتَٰبِ ٱلمُبِينِ (قسم ہے اس کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی) إِنَّآ أَنزَلنَٰهُ فِي لَيلَةٖ مُّبَٰرَكَةٍإِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (یقیناً ہم نے اسے (قرآن کو) بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں) فِيهَا يُفرَقُ كُلُّ أَمرٍ حَكِيمٍ (اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے)۔

سورہ دخان کی آیت نمبر تین إِنَّآ أَنزَلنَٰهُ فِي لَيلَةٖ مُّبَٰرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (یقیناً ہم نے اسے (قرآن کو) بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں)

یعنی اس قرآن کو اللہ تعالیٰ جلا شانہ نے برکت والی رات میں اتارا ہے اب ہمیں کسی مفسر کسی مفکرکے پاس جانے کی ضرورت نہیں، ہم قرآن سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ وہ برکت والی رات کونسی ہے جس میں اس قرآن حمید کو اتارا گیا، کتابِ لاریب اس کا یوں ذکر کرتی ہے إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ» (سورة القدر) "ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا، اب ہم سب یہ جانتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان میں ہے «شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ» (البقرة: 185) اور وہ بھی رمضان کے آخری عشرہ میں۔

یعنی وہ بابرکت رات جس کا ذکر سورہ دخان کی آیت نمبر تین میں ہوا ہے وہ بلا شک و شبہ لیلة القدر ہی ہے جس کا ذکر سورہ قدر کی آیت ایک میں ہوا ہے لہٰذہ یہ بات تو کھلم کھلی واضح ہو گئ کہ لیلة مبارکة ہی لیلة القدر ہے، اسی ایک رات کا ذکر اللہ کریم نے ایک طرف سورہ دخان میں کیا اور دوسری جگہ سورہ قدر میں۔ برکت والی رات لیلة مبارکہ سے مراد شب قدر یا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے «شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ» (البقرة: 185) "رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا" «إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ» (سورة القدر) "ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا"۔