1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. جمیل آصف/
  4. حضرت عائشہ صدیقہؓ (2)

حضرت عائشہ صدیقہؓ (2)

نبی کریم ﷺ کے مختلف ازواج سے متعدد نکاح بہت سے معاشرتی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں اور انکے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور ساتھ میں بہت سی سماجی فرسودہ رسومات اور جاہلانہ افکار کا تدارک بھی ہوا۔ اور ان سماجی پہلوؤں کو نظر انداز کرکے بہت سے مشترقین اور منافقین آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی کے پہلو پر بہت سے اعتراضات کرتے ہیں ان اعتراضات کے جواب میں مولانا مودودی بہت بہترین پیرائے اپنی مدلل رائے کا اظہار کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے نکاح کی حکمت کو مولانا مودودی نے اپنی کتاب سیرۃ سیرت دو عالم ﷺ میں اس طرح بیان کیا ہے۔

"دراصل اس قسم کے اعتراضات صرف اس صورت میں پیدا ہوتے ہیں جب کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہؓ کے نکاح کو ایک عام مرد اور ایک عام لڑکی کا نکاح سمجھ لیا جائے۔ حالانکہ حضور ﷺ اللہ کے رسول تھے۔ جن کے سپرد ان کی زندگی میں ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا اور معاشرت کو اس انقلاب کے لیے تیار کرنا تھا۔ اور حضرت عائشہؓ ایک غیر معمولی قسم کی لڑکی تھیں، جنہیں اپنی عظیم ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر اس انقلابی معاشرے کی تعمیر میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ مل کر اتنا بڑا کام کرنا تھا، جتنا دوسری تمام ازواج مطہراتؓ سمیت اس وقت کسی عورت نے نہیں کیا۔ بلکہ یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے کسی راہنما کی بیوی بھی اپنے شوہر کے کام کی تکمیل میں ایسی زبردست مددگار نہیں بنیں جیسی حضرت عائشہؓ حضور اکرم ﷺ کی مددگار ثابت ہوئیں۔ اسی بنا پر اپنے رسول کی معیت کے لیے ان کا انتخاب خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

ایک اور چیزاس سے عرب معاشرے میں صدیوں سے رائج سوچ کہ منہ بولی بھتیجی سے نکاح نہیں ہوسکتا، کا خاتمہ ہوا وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس رشتے پر سوال کرنے ہوا۔

آپؓ نے حضرت خولہؓ سے جب کہا کہ عائشہ صدیقہؓ تو آپ ﷺ کی بھتیجی ہے تو کیسے؟ حضرت خولہؓ نے اس بات ک ذکر حضرت نبی کریم ﷺ سے کیا

جس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا "ابوبکر سے کہو وہ میرے اور میں ان کا حقیقی بھائی نہی دینی بھائی ہوں اور انکی بیٹی کا نکاح شرعاً میرے لیے جائز ہے۔ (صحیح بخاری)

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت خولہؓ کو کہا کہ آپ ﷺ کو بلا لائیں اور پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے 400 درہم حق مہر طے کرکے نبی کریم ﷺ کا نکاح حضرت عائشہؓ سے کردیا۔ خطبہ نکاح حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پڑھا۔

شادی کے وقت آپ کی عمر کے بارے دو رائے ہیں امت کا بڑا طبقہ 6 سال پر قائل ہے ایک طبقہ 16 سال پر اپنے دلائل رکھتا ہے۔ مختصراََ انکے عقلی اور نقلی دلائل بیان کا جائزہ لینے کے بعد جو پتہ چلا وہ بھی آپکے سامنے رکھنا چاہوں گا۔

چھ سال میں نکاح اور نو سال میں رخصتی کی یہ روایت امام بخاری نے ہشام سے روایت کی ہے۔ روایت کی سند روای کی صحت پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر ہم روای کی تحقیق کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انکے عمر کے دو حصے ہیں ایک مدینہ میں 131ہجری میں ختم ہوا اور اسکے بعد عراقی دور شروع ہوا۔ جب ہشام روای 71سال کا تھا۔ انکے بارے میں حافظ زہبی روایت کرتے ہیں کہ انکو یاداشت کا نقصان ہونے لگا تھا اور انکی یاداشت جاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں انکے شاگردوں امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے انکی عراقی احادیث میں شبہ ظاہر کیا اور نقل و نطق سے گریز کیا۔ اگر دیکھا جائے تو اس حدیث کے باقی روای بھی عراقی ہیں جنہوں نے ہشام سے سنا۔ علامہ کاندھلوی لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر میں بولا جانے والا لفظ "تسعہ عشر" یعنی انیس انکو صرف ("تسع") یعنی "نو" یاد رہ گیا۔

حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد، حضرت خولہ نے آپ ﷺ کے سامنے جب رشتے رکھے تو لفظ "باکرہ" استعمال کیا جو حضرت عائشہ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ عرب میں باکرہ لفظ ایسی لڑکی کے لیے استعمال ہوتا تھا جو عاقل و بالغ ہو۔ شادی کے قابل ہو چکی ہو۔ صرف چھ سال کی عمر کی لڑکی کے لیے با کرہ استعمال نہیں ہو سکتا۔

حضرت عائشہ سے جنگ بدر کی روایت ہیں (صحیح مسلم) تو ایک خطرناک ملٹری مشن میں کم عمر زوج کو آپ ﷺ لے کر جائیں گے؟

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ احد میں آپ ﷺ نے پندرہ سال سے کم عمر لڑکوں کو ساتھ لے جانے سے روک دیا تھا۔ جبکہ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے اماں عائشہ اور ام سلیم کو مشکوں میں پانی بھر کر لاتے دیکھا۔

واللہ اعلم بالصواب۔

عمر کے بارے میں اختلاف دین کی رہنمائی نہیں کرتا بلکہ اللہ کو نہیں پسند کہ عدد کے بارے میں بحث کی جائے۔

کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کرو ان میں سے کسی سےبھی انکا حال دریافت نہ کر"۔ (الکہف: 22)

عمر کی بحث سے قطع نظر حضرت عائشہؓ کے بطور ایک مبلغ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی اشاعت اور بلخصوص خواتین کی تعلیم کے لیے ان کے کردار کا پہلو ہمیشہ نمایاں نظر آتا ہے جس کا ذکر اکثر سیرت کی کتابوں میں آتا ہے۔۔

جاری ہے۔۔