1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. جمیل آصف/
  4. حضرت خدیجۃ الکبریؓ (6)

حضرت خدیجۃ الکبریؓ (6)

سیرت ابن ہشام میں حضرت خدیجہؓ کی خدماتِ دین کے حوالے سے لکھا ہے۔ "حضرت خدیجہؓ اسلام کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کی مشیر تھیں"۔

آپؓ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مل کر اشاعت اسلام کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ شروع کے 3 سال میں جو 133 افراد اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے ان میں 27 خواتین (اہلخانہ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر خطاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہن وغیرہ) بھی شامل تھیں جو حضرت خدیجہؓ کی ترغیب و تبلیغ پر مسلمان ہوئی اور "سابقون الاولون" کا شرف پایا۔ اس حوالے سے آپؓ کو مبلغ اسلام کا وصف بھی حاصل ہے۔

آپؓ کی شان میں حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "(سابقہ) امت کی عورتوں میں مریم بنت عمران، آسیہ زوجہ فرعون افضل ہیں اور (اس) امت کی عورتوں میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ افضل ہیں"۔

آپؓ کو اس بات کا شرف بھی حاصل ہے آپؓ کے لیے عرش سے اللہ رب العزت اور فرشتے سلام بھیجتے تھے اور جنت کی بشارت بھی دی جاتی تھی روایات میں آتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: "جبریلؑ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! یہ خدیجہ آ رہی ہیں، ان کے پاس برتن ہے، جس میں سالن، کھانا یا پانی ہے۔ جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو ان کو بلند مرتبہ پروردگار اور میری طرف سے سلام کہیے اور انکو جنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت دیجیے، جہاں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا نہ تھکن ہوگی۔ "

مفسرین نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بات لکھی ہے کہ آپؓ نے ازدواجی زندگی میں اس بات کا اہتمام رکھا کہ آپؓ کی آواز نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند نہ ہو۔ اسی انعام میں اللہ رب العزت نے آپؓ کو شور شرابہ سے پاک محل کی بشارت دی۔

حضرت عائشہؓ آپؓ کی فضیلت بیان کرتی ہیں: "نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو دنیا میں جنت کا انگور کھلایا" (معجم اوسط طبرانی، حدیث 6277)

نعیم انور رحمانی صاحب ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ "ان دونوں مقدس ہستیوں کی ازدواجی زندگی کا ایسا اسوہ سامنے آتا ہے جس کے اپنانے اور نبھانے سے کامیاب ازدواجی زندگی کی کامل ضمانت نظر آتی ہے۔ "

حضرت خدیجہؓ کی وفا شعاری، آپؓ کا اپنے محبوب شوہر سے والہانہ عشق و عقیدت ہی تھا جو فرائض نبوت کے دوران ہر گرم سرد حالات میں وہ پامردی کے ساتھ آپ ﷺ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ آپ ﷺ کو دلاسہ اور پرسہ دیتی رہیں۔ جب قریش مکہ کی اذیتوں سے پریشان حال آتے تو آپؓ انکی دلجوئی کرتی۔ آپؓ کہتی "غم نہ کریں اللہ آپ کے ساتھ ہے اور آپ ﷺ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی ستایا گیا۔

شعب ابی طالب کے گھٹن زدہ ماحول میں آپؓ نے ہر مشکل حالات کو پامردی کے ساتھ سہا۔ اور اپنے اثر و رسوخ سے مقدور بھر اپنے محبوب اور ان کے اصحاب کی آسانی کرتی رہیں۔ جب نبی کریم ﷺ اور بنو ہاشم کا قریش مکہ نے بائیکاٹ کیا تو آپؓ کو انہوں نے کہا آپ بنو اسد قبیلہ سے ہیں اور ہمارا بائیکاٹ بنو ہاشم سے ہے آپؓ نے فرمایا میرا قبیلہ کوئی نہیں میرا قبیلہ میرے محبوب شوہر ﷺ کا ہے۔ یہاں سے آپؓ کا اسوہ شوہر کی محبت اور وفا داری کی عکاسی کرتا ہے۔

معاشرتی مقاطعہ کے بعد جب رہائی ملی۔ آپؓ اچانک بیمار ہوئیں۔ ہر دکھ میں دلاسا دینے والی وفا شعار، پاکدامن، غمگسار اہلیہ نبی کریم ﷺ کے کڑے وقت میں رفیق الاعلیٰ سے جا ملیں۔ بوقت جدائی وفات کا وقت آیا تو آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ جبرائیل آمین آئے کہا یارسول ﷺ انکی آنکھیں صاف کر دیجیے۔ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو کہا کہ جبرائیل آمین کہہ گئے ہیں جنت میں بھی آپ میری بیوی ہونگیں۔ اور جنت میں بھی ہم اکھٹے ہوں گے۔ آپ مسکرا دیں اور پھر خوشی سے آپ کے آنسو نکلنے لگے۔

آپؓ کو نبی کریم ﷺ نے قبر میں اتر کر خود سپرد خاک کیا۔ آپؓ کی خدمات، محبت اور اپنائیت پر خراج تحسین پیش کیا جو ایک محبت کرنے والے ازدواجی جوڑے کے جدائی پر احساسات ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ "عورتوں میں صرف تین خواتین کامل ہوئیں۔ مریم بنت عمرانؓ، آسیہؓ زوجہ فرعون اور خدیجہ بنت خویلدؓ" مجھے خدیجہ بنت خویلدؓ کی محبت عطا ہوئی۔ "

اور یہی محبت تھی آپ ﷺ نے انکی زندگی میں کسی اور عورت سے شادی نہیں کی۔

ابن ہشام میں ہے "وہ پہلی عورت تھیں جن سے نبی کریم ﷺ نے عقد فرمایا۔ انکی زندگی میں آپ نے دوسرا عقد نہ کیا یہاں تک کے وہ انتقال کر گئیں۔ اللہ ان سے راضی ہو۔ "

حضرت عائشہؓ سے حضرت خدیجہؓ کی فضیلت اور عظمت کے حوالے سے بہت سی روایات ہیں۔

ایک روایت میں ان کے الفاظ ہیں۔ "میں نبی کریم ﷺ کی ازواج میں کسی سے اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہؓ پر حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے وفات پا چکی تھیں۔ میں اکثر نبی کریم ﷺ سے ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی"۔

جاری ہے۔۔