معارف الحدیث میں مولانا منظور نعمانی حضرت سودہ بنت زمعہؓ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ "نکاح کے بعد نبی کریم ﷺ کے ہجرت فرمانے تک تین سال منکوحہ رفیق حیات کی حیثیت سے تنہا ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہیں۔ ان کے اوصاف و احوال میں انکی سرچشمی، استغنا، دنیا سے بے رغبتی اور فیاضی قابل ذکر ہے"۔
پروفیسر اسرار حسین معاویہ سیرت حضرت سودہ بنت زمعہؓ کے سلسلے میں اپنے ایک لیکچر میں ان کے خصائل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ "ہماری گیارہ ماؤں میں سب سے بھولی بھالی، فربہ مائل وجود، طبیعت میں مزاح، کثرت سے حضور اکرم ﷺ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا انکا کام تھا"۔
آگے ان کے خصائل میں پروفیسر اسرار حسین معاویہ بیان کرتے ہیں۔ "جب کبھی آپ ﷺ پریشانی میں ہوتے تو ازواج مطہراتؓ حضرت سودہ بنت زمعہؓ کے پاس جاتیں۔ حضرت سودہ بنت زمعہؓ ایک مخصوص چال چلتی تھیں جس کو دیکھ کر حضور اکرم ﷺ مسکرا پڑتے تھے۔ ازواج مطہراتؓ کو جب بھی آپ ﷺ کے چہرے پر مسکان لانا ہوتی تو حضرت سودہ بنت زمعہؓ کو بولتیں اور حضرت سودہ بنت زمعہؓ مخصوص چال سے چلتی اور آپ ﷺ مسکرا اٹھتے"۔
ایک دن اللہ کے نبی ﷺ گھر نفل پڑھ رہے تھے حضرت سودہ بنت زمعہؓ ساتھ کھڑی ہوگئی۔ حضور ﷺ سجدے میں گئے آپ ﷺ کا سجدہ لمبا ہوگیا حضرت سودہ بنت زمعہؓ کو گمان ہوا کہ کہیں میری نکسیر نا پھوٹ جائے۔ ناک کو دباتی رہی پھر سلام پھیر کر واپس آ گئیں۔ نبی کریم ﷺ نے محسوس کیا سودہ بنت زمعہؓ پیچھے نہی ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا تو اس انداز سے کہنے لگی یا رسول اللہ ﷺ میری تو نکسیر پھوٹنے لگی تھی۔ آپ ﷺ لمبے سجدے نا کیا کریں یا ہمیں نا کہا کریں۔ تو نبی کریم ﷺ مسکرانے لگے۔ یہ ایک بیوی کا کردار ہے جو اپنے محبوب شوہر کی تناؤ زدہ کیفیت کو اپنی توجہ سے آرام دہ، پرسکون کیفیت سے بدل دیتیں۔
امت پر حضرت سودہ بنت زمعہؓ کا ایک احسان یہ ہے جب دس ہجری کو نبی کریم ﷺ ازواج مطہراتؓ کے ساتھ حج کو گئے چونکہ حضرت سودہ بنت زمعہؓ فربہ مائل تھیں مزدلفہ میں رات کو قیام تھا عرفات سے مزدلفہ آئے مزدلفہ میں ہجوم زیادہ ہوگیا آپؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی میرا وجود بھاری ہے راستہ گھیر لیتی ہوں ہجوم میں چلنے میں دشواری ہوگی، تو آپ ﷺ مجھے اجازت دیں راتوں رات منیٰ چلی جاتی ہوں۔ تو نبی کریم ﷺ نے حضرت عباسؓ کو کہا کہ انہیں منٰی پہنچا دیں۔ تو آپؓ نے باقی ازواج مطہرات کو بھی چلنے کو کہا انہوں نے جواب دیا آپ کو اجازت آپ کے بھاری وجود کی بنا پر ملی ہے آپؓ کچھ لمحہ ٹہر کر روانہ ہوگئی۔
مسلمانوں کو جو مسئلہ ملا اگر خواتین بیمار ہوں، چلنے میں تکلیف ہو، یا بھاری وجود ہو، یا ان کے ساتھ بچے ہوں یا انہیں کوئی مرض ہو تو وہ عرفات کے میدان میں رات کے پہلے پہر قیام کرکے منیٰ آسکتی ہیں۔ (بخاری کتاب الحج)
اطاعت اور فرمانبرداری میں نمایاں تھیں آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ازواج مطہراتؓ کو مخاطب کرکے کہا "میرے بعد گھر بیٹھنا" حضرت سودہ بنت زمعہؓ نے اس شدت سے اس حکم پر عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے نہی نکلیں، فرماتی تھیں کہ میں حج اور عمرہ دونوں کر چکی ہوں اور اب اللہ کے حکم کے مطابق گھر بیٹھوں گی۔ (الزرقانی 261/3)
جاری ہے۔۔