1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. تجھ پہ کوئی الزام نہیں آئے

تجھ پہ کوئی الزام نہیں آئے

شہر میں دانائی و شعور کا جیسے کال پڑ چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دلیل اب اتنی بازی گر نہیں رہی کہ سیاہ کو سفید دکھا سکے یا رنگوں کو یوں گڈ مڈ کر دے کہ صرف ایک رنگ ہی دکھائی دے۔ زندگی کی حقیقت یا سچ کے افسانے کو جھوٹ کا ون لائنر بیانیہ کھا گیا ہے۔ ہیرو لمبی لمبی تقاریر کے شوقین، مثالیت کے مضمون پڑھنے پر مصر اور ولن کے ہاتھ چور، ڈاکو، بد دیانت کا ون لائنر paid content ہے جو آپ کے ہزار بار رد کرنے پر بھی آپ کے سامنے آتا رہتا ہے اور کم زور دماغ کو کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص لڑنے مارنے پر تیار اور دوسروں پر فتح پانے کا طالب ہے۔ شاید ان کے نزدیک چھوٹی چھوٹی نیکیاں پانے کی واحد امید جہاد کی ایک یہ ہی صورت ہے اور تڑپنے پھڑکنے کی توفیق کا مطلب ایسا ہی شور و غوغا ہے۔ میٹرو میں سفر کرنے والی بچیاں اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ لڑکے گروپ کی صورت بدزبانی اور گالی کی زبان میں واہیات ماحول بنائے رکھتے ہیں۔ کئی صورتوں میں وہ بس کا دروازہ بھی نہیں کھولنے دیتے۔ ہر اسٹیشن پر روزانہ کی بنیاد پر چوری، خاص طور پر موبائل چوری کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن ایسی تجاوزات کے خلاف نہ کوئی آپریشن ہے اور نہ ہی ان کی روک تھام کا کوئی بندوبست۔ تعلیمی اداروں سے دفاتر تک ایسے چیخنے والے ون لائنر سب کو ایک طرف کرنے کی کوشش میں ہلکان ہیں۔

دوسری طرف شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک آپریشن شروع کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر تجاوزات کے سد باب کا ایک ہی طریقہ رائج ہے۔ وہ ہے مسمار کرنا۔ بڑے بڑے بلڈوزر ایک لمحہ میں افرادی قوت، وسائل اور حدود کو زمیں بوس کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ پٹرول پمپ گرانے کے بعد بھی وہاں پٹرول پمپ ہی بنایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تجاوزات کی تعمیر میں کون لوگ ملوث ہیں اور یہ تعمیر ہوتی ہی کیوں ہیں۔ تب حکومتی ادارے کہاں ہوتے ہیں جن کے پاس چھوٹی تجاوزات کو بند کروانے کا کوئی کلیہ نہیں لیکن ہر قسم کی ہیوی مشینری کا لائسنس موجود ہے۔

وسائل کی ری سائیکلنگ اور رویوں کی ری کنسٹرکن میں کوئی ادارہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ تجاوزات کا تعلق حدود سے ہے اور بدقسمتی سے ہم الزام تراشی، بہتان، دھونس اور کاروکاری کے سوا کسی حد کے قائل ہی نہیں۔ قانون کے چور دروازوں میں ایسے کئی رخنے یا نقب لگانے کے ماہرین معاشرے میں بد تہذیبی کے بیج بونے کے شوقین معلوم ہوتے ہیں۔ تہذیب تو یہ کہتی ہے کہ ایک گاڑی میں سفر کرنے والے اگر دوسری گاڑی میں جھانکتے ہیں تو یہ بھی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ یہ درندوں کا کام ہے۔ کسی کی ذاتی زندگی کو کریدنا بھی حدود پار کرنے کے مترادف ہے۔ زمین کریدنا کیڑے مکوڑوں کا کام ہے۔

کسی پر مسلسل الزام تراشی اور بہتان لگا کر چیختے جانا بھی حدود کو پار کرنا ہے۔ بھونکنا کتوں کا کام ہے۔ کتے پہاڑ پر کھڑے ہوں تو نیچے دیکھ کر بھونکتے ہیں اور پہاڑ سے نیچے ہوں تو اوپر دیکھ کر بھونکتے رہتے ہیں۔ سر سید اپنے مضمون بحث و تکرار میں کتوں اور انسانوں میں تمیز کرواتے ہوئے لکھتے ہیں۔ "جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہوکر رہ جاتی ہے، کہیں توں تکار تک نوبت آ جاتی ہے، کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گزر جاتی ہے، مگر ان سب میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔

پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی، محبت اور دوستی کو ہاتھ سے دینا نہ چاہیے"۔

لیکن دین کا چوغہ پہن کر یہ بازی گر کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ جس طرح کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دوسرے کے دروازے کے سامنے پھینک کر اپنی صفائی پسند طبیعت کی تسکین کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہم دوسروں پر الزام دھر کر، اپنے کپڑے جھاڑ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ جس طرح کالج روڈ کا نام بدل کر بڑی الذمہ ہو گئے۔ وزیر اعلی کبھی ایسی نادیدہ تجاوزات کا بھی معائنہ کروائیں۔ جہاں پیدل چلنے والوں کی حدود طے ہیں اور نہ سہولیات میسر ہیں۔ شہر کی مصروف سڑکوں پر خاص طور پر ٹھوکر نیاز بیگ پہ سڑکوں کا جال اور لاوارث شہری۔ پیدل چلنے والوں کے لیے زیر زمین گزرگاہ ضرور ہونا چاہیے۔

ویسے تو حکمرانوں کی مصلحت کا تقاضا ہے کہ رعایا بے حس ہو اور اس میں باہمی دوستی اور رفاقت کا کوئی رشتہ پروان نہ چڑھے۔ پٹواری اور انصافی اسی مصلحت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ہر بات کا خیال رکھنے کا مطلب ایک ہی ہے جہاں خیال رکھے جانے والے کا فائدہ ہو۔ وہ تجاوزات ہوں، سڑکوں کا جال یا پیدل جانے والوں کے لیے زیر زمین گزرگاہیں اور فٹ پاتھ۔

رہے نام اللہ کا