1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ثناء ہاشمی/
  4. یہاں نہیں تھے ہم اپنے گاﺅں میں تھے

یہاں نہیں تھے ہم اپنے گاﺅں میں تھے

موبائل فون ہاتھ میں تھا اور میں فون بس ملانے کے لئے اٹھاہی رہی تھی کہ اچانک واٹس اپ پر ایک ویڈیو پیغام آگیا میں نے کال کا ارادہ ترک کیا اور ویڈیو کو پلے کرلیا، بیک گراونڈ میں لافٹر ایفکیٹ کے ساتھ ایک صاحب ہاتھ میں مائیک پکڑ کر کسی بازار میں گھوم رہے تھے اور مائیک پر کسی چینل کا کوئی لوگو نہیں تھا اور وہ صاحب لوگوں سے دریافت کر رہے تھے کہ یہ 23 مارچ کو ایونٹ کیا ہوا تھا ؟ پہلے تو سوال پر ہی کئی سوالات زہن میں ابھرے لیکن پھر خاموشی سے ویڈیو دیکھنے لگی، پہلا جواب تھامجھے نہیں معلوم، دوسرا جواب تھاکہ 23 مارچ کو چھٹی اسلیے ہوتی ہے کہ یہاں کچھ قوتیں ہیں جو سیلیبریٹ کرناچاھتی ہیں اپنی پاور کو یوں کئی اور لوگوں نے متفرق جوابات دیئے لیکن ایک صاحب نے جواب دیا ہم اس دن یہاں نہیں تھے گاﺅں گیا ہوا تھا اور یہ سب سے برا لافٹر تھا ہاہاہا ہا، بس ویڈیو کے اختتام پر میں نے کال کرنے کا ارادہ مکمل طور پر ترک کر کے پہلے ذہن میں ابھرنے سوالے موضوع کو لکھنے کا سوچا۔

یہ پہلی بار نہیں تھا کہ ایسی کوئی ویڈیو بنی ہو، بلکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم جب نیوز روم میں بیھٹتے ہیں تو اکثر رپوٹر سے کہتے ہیں کہ ذرا عوام سے تو پوچھیں وہ کیا جانتے ہیں 23 مارچ یا 14 اگست یا 6 ستمبر کے حوالے سے یا بھر 25 دسمبر کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے یا 9 نومبر کس شخصیت کی یاد کا دن ہے، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ عوام کی اکثریت اس سے نابلد ہو گی، لیکن ہم ایسے تمام جوابات کو ایڈڈیٹنگ کے زریعے اور دلچسپ ترتیب دے کر ٹیلی کاسٹ کرتے رہے ہیں لیکن ہر بار یہ سوال ضرور زہن میں ابھرا کہ اس لاعلمی کی وجہ کیا ہے، اور ہر بارخود کو یہ کہہ کر مطمئن کیا اتنے معاشی مسائل میں گھری عوام سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے23 مارچ کس دن کی پڑ رہی ہے دیکھنا یار چھٹی نہ ماری جائے چلو جمعہ کا دن ہے ہاف ڈے ہوگا نماز کے بعد ایک گھنٹہ آفس اور پھر گھر گھر کی کہانی ہم اور آپ میں سے کتنے لوگ ایسا سوچتے ہیں اور کہتے اور کرتے ہیں کسی سے نہیں خود سے سوال کر لیں، اور حکومت سندھ نے 23 مارچ کو صوبے میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا بھئی واہ واہ یہ ہوئی نہ بات لانگ ویکینڈ مل گیا بس یہ اہمیت ہے ہماری نظر میں ہمارے قومی دنوں کی، ایسا لگتا ہے ٹی وی کے اینکرز اور لوگ بس یہ دن مناتے ہیں ورنہ تو سب کے بس کسی شاپنگ مال میں جاکر ٹائم پاس کرنے یا سونے سے زیادہ اس دن کو اہمیت نہیں دیتے اس سب میں گھروںمیں موجود نانا،نانی، دادا دادی، یا اماں، بابا بھی چاہ کر بھی اپنے بچوں تک ان دنوں کے اہمیت پر لب کشائی نہیں کر پاتے کیونکہ انکے سامع وہ نوجوان ہیں جو انکی بات سنتے ہوئے واٹس اپ پر پیغام رسانی کے عمل میں مصروف ہوتے ہیں یا انسٹگرام کے لائیکس کی تعداد دیکھ کر خوش ہورہے ہوتے ہیں یا اسنیپ چیٹ پر کچھ نیا اپلوڈکرنے کی تیاری تو کون سنتا ہے پاکستان کی کہانی، اور جب کوئی سوال کرے کہ یہ 23 مارچ کو کیا ہوا تھا تو ہم کہتے ہیں ہم یہاں نہیں تھاہاہاہاہا، یہ ہنسی سے ذیادہ شرمندگی کا مقام ہے میں یہ بات پوری سچائی سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے 23 مارچ 14 اگست 6 ستمبر سے لیکر 9 نومبر اور 25 دسمبر کے دنوں کو میری دادی اور نانا نے روشناس کروایا جس میں اماں ابا کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے، جب صرف پی ٹی وی کا دور تھا اور صبح سویرے اماں ابا پریڈ کا منظر ٹی وی پر بیٹھ کر دیکھاتے تھے اور ساتھ ساتھ معلومات بھی دی جاتی تھی، جبکے اسکولز میں منعقدہ کسی بھی ایسے قومی تہوار پر حصہ لینے پر گھر میں ہی تیار کیا جاتا تھا پھر وہ چاھے تقریری مقابلہ ہو بیت بازی، یا ملی نغمے، لیکن اب یہ سب معدوم ہوگیا۔

23 مارچ 1940 کو کیا ہوا تھا ؟ اس دن یعنی 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا یہ جواب میرے پڑھنے والوں کو یقینا معلوم ہو گا لیکن یاداشت میں محفوظ باتوں کو دہرا دینے سے انکو تازہ کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں تو آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ملکی حالات کے پیش نظر یوم پاکستان کو منانے کے لیے ہر سال 23 مارچ کو خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پاکستان کی مسلح افواج پریڈ بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستی اثاثوں اور مختلف اشیاء کو نمائش کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ملک بھر سے لوگ فوجی پریڈ کو دیکھنے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔ 2008ء کے بعد سیکیورٹی خدشات اور ملک کو درپیش مسائل کے باعث پریڈ کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن 23 مارچ 2015ء کو ایک بار پھر اس تقریب کو منانے کا آغاز ہوا اور اس اسکے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے اور انشااللہ جاری رہے گا، ملک میں امن وامان کی صورتحال گزرے سالوں سے بہت بہتر ہے وزیر داخلہ خود کہہ چکے کہ ہیں کہ کراچی میں بھتہ کی پرچیوں کے بجائے پی ایس ایل کی ٹکٹس کی پرچیاں دی جارہی ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ان ٹکٹس کی مدد میں ہی سہی بھتہ خوری تو ہے، مجھے لکھتے لکھتے یاد آیا کہ یوم پاکستان کی پریڈ کے مہمان خصوصی کا نام بھی آپکو یاد دلا دوں جی ہاں وہ ہوتے ہیں ریاست پاکستان کے صدر جو کہ ممنون حسین صاحب تو رہیے تیار بہت دنوں کے بعد ان سے بھی ہوگی دھوپ کی ملاقات (ازراہ تفنن) لکھا ہے بہرحال آئین پاکستان میں صدر پاکستان کو جو اختیارات دیئے گئے محترم جناب صدر پاکستان جناب ممنون حسین صاحب اسکے تابع رہتے ہوئے اپنے فرائض نبھا رہے ہیں لیکن جیسے عوام دہی بڑے اور چنا چاٹ مکس کر کے کھاتی ہے تو بس اسی طرح قومی تہوار پر صدر صاحب پر سوشل میڈیا کی تنقید کے بغیر یہ دن پھیکا پھیکا لگتا ہے سو بس یہ سمجھ لئے یہ چنوں پر دہی بڑوں جیسا ذائقہ ہے تھوڑے سے مصالحے کے ساتھ۔

پاکستان میں شرح خواندگی کے اعدوشمارکوبھی ذرا ذہن میں تازہ کرلیں جسکے مطابق وفاقی حکومت نے 18-2017 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 90 ارب 51 کروڑ 60 لاکھ روپے مختص کئے ہیں جبکہ 2016-17 کے بجٹ میں حکومت نے 84 ارب 19 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے تھے تاہم تعلیم پر 84 ارب 70 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کیے گئے، جبکہ 17-2016 کے بجٹ کی مجموعی مالیت 43 کھرب 90 ارب روپے تھی۔ واضح رہے کہ رواں سال مختص بجٹ میں پری پرائمری اور پرائمری تعلیم کے میدان میں 8 ارب 74 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے جائیں گے سیکنڈری ایجوکیشن کی بہتری کے لیے 10 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ مختص کیے گئے ہیں اورانتظامی امور کے لیے ایک ارب 28 کروڑ 60 لاکھ روپے جبکہ تعلیمی خدمات کے لیے ایک ارب 28 کروڑ 60 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے آپ میں سے کئی لوگ اعدداوشمار سے بیزار ہو رہے ہوں گے بس یہی مسئلہ ہے کہ ہم اصل بات کو جاننے اور سمجھنے کو اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں تعلیم جیسے اہم معاملہ پر ہم نے ہمیشہ آفاقی گفتگو سنی ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے حقائق سے ہم نے ہمیشہ پہلو تہی کی ہے، اور نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ جب کوئی پوچھے کہ بھائی یہ قومی دن کیوں منایا جاتا ہے تو ناخونداگی زبان چڑا کر ہم پر ہنستی ہوئی چلی جاتی ہے عوام کو بنیادی سہولت سے بے بہرا رکھاہوا ہے جسکا نام تعلیم ہے، یہ وہ دفاع ہے جو ہمیں کہیں کمزور نہیں پڑنے دے گا لیکن اس پر عمل کب ہوگا یہ ابھی طے نہیں ہوا اور کب ہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، ، ، تو پھر جب تک کے لئے اگر کوئی آپ سے سوال کر لے کہ 23 مارچ کو کیا ہواتھا تو آپ بھی کہہ دیں، ہم یہاں نہیں تھا ہم اپنے گاﺅں گیا ہوا تھا، یا پھر لمبی تان کر سوجائیں۔

ثناء ہاشمی

ثناء ہاشمی نے بطور اینکر اے آر وائی، بزنس پلس، نیوز ون اور ہیلتھ ٹی وی پہ کام کر چکی ہیں۔ ثناء آج کل جی نیوز میں کام کر رہی ہیں۔ ثناء کے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔