1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. ہیں پاسبان حرم خود ہلاکوو چنگیز

ہیں پاسبان حرم خود ہلاکوو چنگیز

آج پوری دنیا میں اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جس میں انسان کے اخلاقی اقدار ومساوات اور صلح و امن و آشاتی کے نظریات اس کرہ ارض پر کچھ اس طرح سے بسیط ہیں کہ جس نے صرف دنیا کو ہی تسخیر نہیں کیا بلکہ انسانی قلوب کو بھی مسخر کر رکھا ہے۔ اسلامی نظریات کے شدید مخالفین بھی اس کے حلقہ اثر سے باہر نہیں ہیں۔ اسلام کے نظریات کے رد و وقبول کے اپنے بہت سے اسباب و عوامل ہیں، جن کا براہ راست تعلق ہمارے سماجیات سے ہی استوار ہیں۔

لیکن موجودہ عہد میں اسلام کے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ سامراجی و طاغوتی قوتوں نے اسلام کی اصل صورت کو بری طرح سے مسخ کردیاہے، اور ساری دنیا کو اسلام کا وہ چہرا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا تعلق اسلام سے دور دور تک نہیں ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے خلاف ان استعماری طاقتوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع خود مسلمانوں نے ہی دیا ہے۔ آج جس اسلام کی چرچا پوری دنیا میں ہورہی ہے، اصل میں وہ حقیقی اسلام نہیں بلکہ ایک نقلی اسلام ہے جو ملوکیت اور آمریت کی آغوش کا پروردہ ہے۔ جس کی بنیاد میں تشدد، نفرت، عدم مساوات، جبر و تشدد اور دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن یہاں پر ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی اسلام کسی طرح سے ملوکیت اور آمریت میں تبدیل ہوا اسے سمجھنے کے لئے اوائل اسلام کی خلافت کے عہد کو ماضی کے جھرونکوں سے دیکھنے کی کوشش کریں اور اس کا تجزیہ محض اپنی ذاتی عقیدت کے بجائے عقل و منطق کی بنیاد پر کریں، تو یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے پس پشت کون سی طاقتیں کارفرما رہی ہیں اورخلافت کو کس طرح سے ملوکیت نے یرغمال کیا،یہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔

لیکن ہم مسلمانوں سے سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ ہم نے اُس اسلام کو پس پشت ڈال دیا جس کے داعی خود رسول اکرم تھے اور جس کا آئین اللہ کا بنایا ہوا تھا، اور ہم نے اس اصلی اسلام کے بجائے اُس اسلام کو بغیر کسی ردوکد کے اپنا لیا جسےملکویت اور بادشاہت نے پرموٹ کیا، اور جن لوگوں نے بادشاہت کی نگرانی میں پھل پھول رہے اُس جعالی اسلام کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی گردن بلند کی اس کی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا، اور ان کے سروں کو کچل دیا گیا۔ یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جس سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

موجودہ عہد میں اسلام کی صورت حال کو ماضی کے انھیں تاریخی کڑیوں سے اگر آپ ملا کر دیکھیں تو آج کے شاہی اسلام اورعہد قدیم کے ملوکیت والے اسلام کی ہی ایک شکل ہے۔ جس کی کفالت بادشاوں کے بڑے بڑے محلات اور تخت واقتدار کے زیر نگرانی ہوئی، اور عالم اسلام کا ایک بڑا طبقہ ان بادشاہوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے اسلام کو ہی اصلی اسلام سمجھ بیٹھے۔ جس کی وجہ سے یہ اسلام ساری دنیا کے سامنے ایک مسئلہ بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ اگر آپ اُس نقلی اسلام کی اصلی صورت دیکھنا چاہتے ہیں تو سعودیہ میں امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے استقبال کے انداز سے لگا سکتے ہیں کہ وہ قوم جو اسلام کی ازلی دشمن رہی ہے، اور ہر زمانے میں ایک نئی تخریب کاری کی منصوبہ بند سازشوں کے ساتھ اسلام سے برسر پیکار رہی، آج وہی طاقتیں اسلام کے حقوق کی بازیابی کی باتیں کررہی ہیں،اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

آج مشرق اوسطی یعنی عراق، سیریا، یمن اور بحرین میں خاک و خون کے بازار کو گرم کرنے میں یہ صہیونی اور استعماری طاقتوں کا ایک بڑا رول ہے، جس میں سعودیہ عرب جیسا ملک بھی انھیں صہونیت اور سامراجیت کی بچھائی ہوئی سیاسی بساط کا ایک ایسا مہرا ہے، جس کا استعمال بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنی بادشاہت کے استحکام کی فکر ہے، لہذا وہ اسلام کے تمام آئین و اصول پر اپنے ذاتی مفاد کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔ مستقبل قریب میں ان کی یہی غیر سیاسی حکمتی عملی ان کے زوال کا اصل پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ جیسا کہ اس سے پہلے صدام حسین، معمر قذافی اور مصر کے سابق صدر مرسی کے ساتھ ہوچکا ہے۔ ان یہودیوں نے ان بادشاہوں کو ساری دنیا کے لئے اک نشان عبرت بنادیا۔ جس کی اگلی کڑی اب خود سعودیہ عربیہ بھی ہے۔

امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا سعودیہ عربیہ کا دورہ اصل میں ایک بڑی سازش کا اعلامیہ ہے۔ جس کو لے کر عالم اسلام میں ایک تشویش کی لہر ہے۔ کہ سعودیہ کا امریکہ اور اسرائیل سے یہ دوستانہ مراسم ایک کھلی ہوئی سازش ہے۔ جس کا خمیازہ سعویہ کے بادشاہ سلمان اور ان کے حوارین کو تاوان کی صورت میں عنقریب ادا کرنا ہوگا۔

شاہ سلمان کا امریکی صدر سے خیر سگالی کا مقصد بظاہر دنیا کو اپنی طاقت کے علامتی مظاہرے کی ایک کوشش ہے، اور ڈونالڈ ٹرمپ کو اس بات کا علم ہے کہ سعودیہ عربیہ کا 17؍ عرب اور غیر عرب ممالک کو ایک فہرست میں لاکھڑا کرنا مشرق اوسطی میں امریکی اور اسرئیلی مفادات کی تکمیل کے لئے ایک اہم پڑاو ہے۔ مشرق وسطیٰ کے علاقے میں دہشت گرد گروہوں سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں امریکہ اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات ہیں۔ شاہ سلمان ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے دوران 17 عرب اور غیر عرب مسلم ممالک کے سربراہوں کو ریاض آنے کی دعوت دے کر ایک نئے اتحاد کی تشکیل کی کوشش اصل میں دہشت گردگروہوں کومزید استحکام بخشنا ہے۔ ٹرمپ اور شاہ سلمان نے جس تجارتی پیکیج پر دستخط کیے اس میں سے ایک سو دس بلین ڈالر سعودی عرب کو امریکی اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی اگلے دس برس میں فراہمی پر خرچ ہوں گے۔ یعنی یہ گیارہ بلین ڈالر سالانہ کا تخمینہ ہے۔ اب ساری دنیا کو اس بات کا انتظار ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور ریاض حکومت کے مابین ہونے والے مختلف معاہدوں سے عالم اسلام کو کون سا بڑا فائدہ حاصل ہونے والاہے۔ اس کے لئے آپ کو تھوڑا انتظار تو کرنا ہی ہوگا۔ ویسے میں اپنے قارئین کی خدمت میں اللہ تعالی کے ایک اہم قرآنی فیصلہ کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتا ہو جس پر آپ بھی غور و فکر کریں اور ہم بھی۔

’’اے ایمان والو یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انھیں میں سے ہے۔ بیشک اللہ بے انصافیوں کو راہ نہیں دیتا۔ ‘‘ (سورہ المائدہ 5)

یہ اللہ کا کھلا ہوا وعدہ ہے۔ ان لوگوں سے جو یہود و نصاریٰ کو اپنے دوست یا سرپرست تسلیم کرتے ہیں۔ اب اس سے زیادہ کسی بھی سیاسی و سماجی تاویلات کی قطعی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ سوائے اس کے۔


اب اس سے بڑھ کے زوال اور ہو نہیں سکتا

کرے رسول کی امت غلامیٗ انگریز