1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. نوحہ گوئی کا تاریخی جواز اور ادبی اختصاص - 2

نوحہ گوئی کا تاریخی جواز اور ادبی اختصاص - 2

یہاں پر محض نوحہ اور مرثیہ کی تاریخی قدامت پر بات کر نا مقصود نہیں ہے مسئلہ اس بات کا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جو نوحہ کے تاریخی استناد میں حارج ہوئے جس کی وجہ سے ہمارے محققین کہیں نہ کہیں نوحہ اور مرثیہ کی دریافت میں غیر شعور ی طور پرتحقیقی اشتباہ کے شکار ہوگئے جس کی وجہ سے نوحہ اپنی تاریخی شناخت اور ادبی وقار سے آج تک محروم رہا۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ محققین نے مرثیہ کی تاریخی استناد کی ترتیب و تنظیم کا کام مرثیہ کی لغوی یا اصطلاحی تعریف کی روشنی میں کم بلکہ انیسؔ ودبیرؔ جیسے قادر الکلام شاعر کی شاعرانہ مہارت اور مرثیہ کے عوامی مقبولیت سے مرعوب ہوکر کی ہے۔ جس کی وجہ سے نوحہ جیسی قدیم صنف سخن تحقیقی حق تلفی کا شکار ہوگئی۔ اس نقطہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس عہد کا جائزہ لیں جہاں سے ہماری اردو شاعری کا آغاز ہوا۔

ہماری اردو شاعری کا ابتدائی منبع و ماخذ دکن ہے جہاں اردو کی شاعری اپنے قدوقامت کے ساتھ نمو پذیر ہوئی اس لئے دکن ہماری اردو شاعری کا مرجع اول قرار پایا ۔

شبلی ؔ ’’موازنہ انیس ؔو دبیر‘‘کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’ہندوستان میں شاعری کی ابتدا ولیؔ سے ہوئی ولیؔ نے اگر چہ کربلا کے حالات میں ایک خاص مثنوی لکھی لیکن اس کے کلام میں مرثیہ کا پتہ نہیں لگتا یہ معلوم نہیں کہ مرثیہ کی ابتدا کس نے کی لیکن اس قدر یقینی ہے کہ سوداؔ اور میرؔ سے پہلے مرثیہ کا رواج ہو چکاتھا ۔‘‘

مسیح الزماں نے شبلیؔ کی اس تحقیق پر ایراد کیا ہے وہ کہتے ہیں:

’’ کربلا کے واقعات سے متعلق مثنوی ولی دیلوری کی ہے۔ مولانا شبلیؔ کو تخلص ایک ہونے کی وجہ سے دھوکہ ہوا ہے۔‘‘ (موازنۂ انیس ؔ و دبیرؔ مرتبین پروفیسر مجاور حسین ؍ ڈاکٹر سید علی حیدر،حاشیہ ،ص۵۵ )

پروفیسر مجاور حسین کی مذکورہ کتاب کے اسی حاشیہ کا یہ اقتباس بھی قابل توجہ ہے :

’’دکن میں مرثیہ کا نقطہ آغاز حضرت شاہ اشرف بیابانی کی نوسر ہار ۱۵۰۳ ء ہے اس کے بعد حضر ت برہان الدین جانم کا نام نامی آیا ہے۔‘‘

سلطان محمد قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں، ان کے دیوان میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ نوحے بھی درج ہیں نوحہ گوئی کا یہ سلسلہ محض سلطان قلی قطب تک ہی نہیں تھا بلکہ یہ اشرف، وجہی، غواصی، نصرتی، نوری، شاہی، کاظم، مراز، مقیمی، ہاشمی وغیرہ نے بھی نوحے کہے ہیں۔

..........ان تاریخی دستاویزوں کی چھان بین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابتدائی عہد کے شعر سے میرؔ و سوداؔ کے عہد تک کے شعرا کے وہ تما م رثائی کلام جو واقعات کربلا سے متعلق تھے اسے بغیر کسی منطقی نشاندہی کے مرثیہ کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے مرثیہ کی تاریخی شناخت اور نوحہ کی ادبی پہچان مشکوک سی ہوگئی اورجو تحقیقی اشتباہ مرثیہ کی ابتدائی دریافت کے دور میں غیر شعوری طور پر ہمارے ادب میں سرایت کرگئی تھی وہی آج ایک نفسیاتی الجھاؤاور تذبذبانہ رویہ کی شکل میں ظاہر ہوئی۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ محققین نے مرثیہ کی دریافت کا عمل اوراس کی تحقیقی نشاندہی کی لغوی تعریف کی بنیاد پر انجام دی جس کے سبب نوحہ اور مرثیہ میں التباس پیدا ہوگیا اور اس التباس میں بنیادی نقصان نوحہ کا ہوا جس کی وجہ سے نوحہ اپنی ادبی مرکزیت سے کٹ سے گیا۔ اس تحقیقی تسامح کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ نوحہ اور مرثیہ کا ان کی مروجہ تعریف کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔

مرثیہ کی لغوی تعریف:

’’مرثیہ عربی لفظ ہے اس کا مصدر رثا ہے جس کے لغوی معنی یہ ہیں’’ مردے کی صفت ،مردے کی تعریف،وہ نظم یا اشعار جن میں کسی شخص کی وفات یا شہادت کا حال اور مصیبتوں کا ذکر ہو‘‘۔ (نور اللغات،ج ۴ ص۲۳۲)

مرثیہ وہ نظم ہے جس میں مردے کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں یا وہ نظم جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور شہادت کا ذکرہو ( فیرورز اللغات اردو)

نوحہ کی تعریف:

’’نوحہ بھی مرثیہ کی طرح عربی لفظ ہے جس کے معنی صیحہ کرنے کے ہیں (یعنی بلند آواز سے گریہ کرنے کو کہتے ہیں )ماتم کرنا لاش پر چلا کر رونا۔’’

مرثیہ اور نوحہ اپنی ظاہر ی ساخت کی بنیاد پر دو الگ الگ لفظ ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود معنوی سطح پر دونوں کا مقصود ایک ہی ہے یعنی مردے کی لاش پر گریہ کرنا رونا چلانا سینہ کوبی کرنا وغیرہ۔ اب اگر اس تعریف کے تناظر میں غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نوحہ اور مرثیہ کا استعمال محض لفظی مترادفات کے طور پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں معنویت رادف بھی پایا جاتا ہے۔ اب اگر ایسی صورت میں نوحہ اورمرثیہ کی مذکورہ تعریف کی بنیاد پر اس کے تاریخی تشخص کی بات کی جائے تو اس میں کوئی امتیازی افتراق نہیں رہ جاتالہذاایسی صورت میں مرثیہ کو نوحہ اورنوحہ کو مرثیہ کہا جائے تو اس سے انکار کا کوئی معقول جواز بھی نہیں رہ جاتا۔ لیکن اگر اس کے موضوع کی بات کریں تو دونوں کا عمومی موضوع ایک ہے ۔اگر ہیت کے اعتبا رسے دیکھیں تو نوحہ اور مرثیہ کے درمیان ہیت کے اعتبار سے بھی کوئی امتیازی فرق نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اگر مرثیہ دو بیتی، مثلث، مربع، مخمس، اور مسدس کی ہیت میں کہے جاتے رہے ہیں تو نوحہ بھی مرثیہ کی طرح مثلث، مربع، مخمس اور مسدس کی شکل میں کہے گئے ہیں اور کہے بھی جارہے ہیں۔ مرثیہ اور نوحہ اپنی مجموعی کمیت و کیفیت کے اعتبار سے تو ایک ہیں لیکن نوحہ اور مرثیہ میں اگر کوئی امتیازی فرق ہے تو صرف اجزائے ترکیبی کاجسے ’’چہرہ‘‘ ’’گریز‘‘ ’’رخصت ‘‘آمد‘‘ جنگ‘‘ شہادت’’ اور بیان ِ مصائب وغیرہ یہی وہ چیز ہے جومرثیہ کو نوحہ سے ممیز کرتی ہے اوریہ بہت بعد کی ایجاد ہے شاید میرؔ ضمیر جیسے استادِ سخن نے نوحہ اور مرثیہ کے درمیان ایک خط امتیاز پید اکرنے کے لئے مرثیہ کو ایک نئی شکل دی تھی میر ضمیر ؔ کے اس مجددانہ اقدام سے پہلے مرثیہ کا اپنا کوئی انفرادی وجود متعین نہیں تھاجسے وثوق کے ساتھ مرثیہ کہا جاسکے۔لہذا اگر اس بنیاد پر ہم مرثیہ کو نوحہ کی توسیعی شکل کہیں تو یہی زیادہ مناسب اور معقو ل معلوم ہوتا ہے ۔

یہ بات طے ہوگئی کہ مرثیہ کی ایک واحد شناخت اس کے عناصر ترکیبی ہیں دوسرا اس کا موضوع جو محض کربلا کے واقعات سے مختص ہوتا ہے لہذا اس سے ہٹ کر مرثیہ کا تصور ممکن نہیں۔

ڈاکٹر وحید اختر کایہ اقتباس ملاحظہ کریں۔

’’ مرثیہ اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے اگر رثا کے مقصد کو پورا نہیں کرتا اور محض چند واقعات کا بیان انقلابی نعرے تک محدود رہتا ہے تو اسے مشکل سے مرثیہ کہا جاسکتا ہے‘‘ (جدید مرثیہ کے محرکات واسالیب)

سید مسعود ہاشمی۔ لاہوری کا مضمون’’جدیدمرثیہ اور عصری شعور‘‘ کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں ۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں قدیم مرثیہ رونے رلانے کا فن بن کر لوگوں کو رُلا کر آخرت کے سنوارنے کی طرف نگاہ مبذول کرتا تھا وہاں جدید مرثیہ لوگوں کوجگا کر جھنجھوڑکر آخرت اور دنیا دونوں کو سنوارنے کا درس دیتا ہے ۔‘‘ (ماخوذ از حکیم الامت سری نگر)

جدید و قدیم کی اس بحث میں یہ بات دلچسپ ضرور ہے کہ قدیم مرثیہ کے مقابل جدید مرثیہ کی تمام تر جدت پسندانہ روایت بھی رونے رلانے اور حصول ثواب کے حصار سے باہر قدم نہ رکھ سکی اور ان دونوں کے درمیان اگر کوئی فاصلہ وضع کیا گیا تو محض ایک دنیاوی لاحقہ کا۔

مولانا الطاف حسین حالی کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کریں۔

’’ مرثیہ کو صرف کربلا کے ساتھ مخصو ص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کا دہراتے رہنا۔۔۔۔۔۔ شاعری کو محدود کرنا ہے۔‘‘ (مقدمہ شعر و شاعری ص ۲۳۷)

جاری۔۔۔