1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. رمضان المبارک خود احتسابی اور ظلم کے خلاف تجدید عہد کا نام ہے

رمضان المبارک خود احتسابی اور ظلم کے خلاف تجدید عہد کا نام ہے

تقویم ایام اور سنین و شہور کا فلسفہ بہت قدیم ہے۔ اس کے بادی النظر مباحث بڑے پیچیدہ ہیں۔ چونکہ پورے نظام کائنات کا استقر ار انھیں گردش ایام ِ ماہ سال پر انحصار رکھتا ہے۔ اگر ہم اس فسلفے کو مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں تو اس کی معنویت میں ایک نمایاں فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس لئے کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام افراد کا براہ راست تعلق کسی نہ کسی خاص مذہب و عقیدے سے ہی مربوط ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ اُس کا اپنا ذاتی نظریہ کیا ہے۔ لیکن میں یہاں پر اقوام عالم کے اس اجتماعی نظریات کی بات کرنے کوشش کر رہا ہوں۔ جس کی ڈور کہیں نہ کہیں جاکر مذہب و عقائد سے ہی جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ لہذا، اس تناظر میں صرف ماہ و سال ہی نہیں بلکہ دنوں کی اپنی الگ الگ خاصیت ہوتی ہے۔ ہماراپورا انسانی سماج اپنی تمام تر مادی ترقیات کے ساتھ اپنے مذہبی عقاید کی ڈور تھامے ہوئے گردش لیل و نہار کی پشت پر سوار ہوکر ایام، ماہ و سال کے اسی خظ مستقیم سے اپنی زندگی کے ایک لامتناہی سفر کی طرف ہمہ وقت متحرک نظر آتا ہے۔ یہ سلسلہ لاکھوں کروروں سال سے یوں ہی بنا کسی توقف کے چلتا آرہا ہے اور ابد تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔ میں اسی تناظر میں رمضان المبارک کی محض شرعی گفتگو پر زورنہ دیتے ہوئے، اس کے سماجی پہلووں پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک رمضان کے شرعی نصوص کی بات ہے تو اس کے لئے قرآن مجید میں ایک بہت ہی واضح آیت موجود ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’اے ایمان لانے والو! تم پرروزے اسی طرح فرض قرار دیے گیے ہے، جیسا کہ پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی ہوجاؤ۔ ‘‘

اس آیت میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اللہ براہ راست اپنے مومن بندوں سے خطاب کررہا ہے، اور روزے کی اہمیت کو اس پر واضح دلیل کے ساتھ پیش کررہا ہے۔ کہ روزہ صرف تمہارے لئے ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کی بھی امتوں پر فرض تھا۔ قرآن کی آیت کا یہ جز روزے کے قدیمی روایت کی تاریخی وضاحت فرما رہا ہے۔ اب آپ تھوڑی دیر مذہب سے ہٹ کر اسلام کی تمام عبادات کو گناہ و ثواب، رحمت و عذاب کے دائرہ امکان سے نکل کر ان عبادات کا سماجی پہلوؤں سے منطقی تجزیہ کریں، تو آپ کو اس کی افادیت کا بھرپور احساس ہوگا کہ پروردگار عالم نے، جن عبادات کو ہمارے لئے فرض قرار دیا ہے، اس کا تعلق اخرت سے کہیں زیادہ اس دنیا کے فوائدپر قطعی جواز رکھتا ہے۔ لیکن مسئلہ اس بات کا ہے کہ مذہب کے نام پر ایک مخصوص طرز فکر کو معاشرے میں فروغ دینے والے مذہبی معلمین و مصلحین اپنی تقریروں اور انداز خظابت سے عوام کے ذہنوں میں اپنی خود ساختہ عظمت وجلالت کا مذہبی حوالوں سے کچھ ایسا خوف بٹھا دیتے ہیں، کہ انسان نفسیاتی طور سے اسی میں الجھ کر رہ جاتا ہے، اور اُس کی ہر بات کو الہی فرمان سمجھ کر کسی تنقید و ایراداور چوں چرا کئے بغیر اُس کے آگے سراپا تسلیم ہوجاتاہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کا تعلق ہر مذہب کے ساتھ ہے۔ خاص کر عبادات کے سلسلے سے سادہ لوح انسانوں کو اتنے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ جس کے اعداد شمار سے انسان خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی سمجھنے اور کہنے میں گریز تک نہیں کرتا۔ یا اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہونے والے صریحی احکام کی ایسی تاویلات و تشریحات پیش کی جاتی ہیں۔ جسے سننے کے بعد ایک خاطی اور گناہگار انسان کے ذہن میں خدا ئےمطلق کی ذات سے، اُس کے ذہن و دل و دماغ میں ایک ایسا تصور جنم لینے لگتا ہے۔ جس کے تناظر میں وہ خود کو ایک ایسا مجرم تصور کرنے لگتا ہے۔ جس کو جہنم کے سخت ترین عذاب کے علاوہ کچھ اور نہیں دکھائی دیتا۔ ایسی صورت میں وہ نفسیاتی طور پر خدائے کریم کے لطف و عنایت اور اس کے رحم و کرم سے خود کو محروم سمجھنے لگتا ہے۔ ان دو صورتوں میں انسان کے ذاتی خسارے کے ساتھ مذہب کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نہ تو اسے اپنی ذات کا عرفان نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی خدا ئے علیم وخبیر کے وجود کی معرفت کا ادراک۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسلام کی تمام تر عبادات کی تفہیم، قبر و برزخ، دوزخ و جہنم اور جنت و حورو غلمان کے حصول تک ہی محدود نہ کی جائے، ورنہ انسان اپنی آخرت کے مفاد کو حاصل کرنے کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے آخرت کے ساتھ اس دنیا کو بھی اپنے ہاتھ سے کھوسکتا ہے۔ ہمیں افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم مجموعی طور پر عبادات کی فضیلت اور ثواب پر اپنی گفتگو مرکوز رکھتے ہیں۔ لیکن ہم از سر نو ان عبادات کے سماجی اور معاشرتی پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جواسلامی نقطہ نظر سے قطعی درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دین و دنیا کو مساوی حیثیت حاصل ہے، اس لئے آخرت کے حصول کرنے کے لئے دنیا کو ترک کرنے والوں کی اللہ نے مذمت کی ہے، اور اسلام میں روہبانیت جیسے نظریات کی سخت تردید کی گئی ہے۔

اسلام میں مروجہ تمام دینی احکام و عبادات کے اساسی آئین میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کا بڑے توازن کے ساتھ ایک خوبصورت امتزاج رکھا ہے۔ اسی لئے اسلام کی کوئی ایسی عبادت نہیں ہے جس میں آخرت کے ساتھ انسان کی عائلی و سماجی زندگی کو پس انداز کیا گیاہو۔ اسی طرح سے اسلام کی اہم عبادت روزہ بھی ہے۔ جس کو محض آخرت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ان روزوں میں دنیاوی حکمت کو بھی پوشیدہ رکھا، جس کی پابندی سے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارا اسلامی سماج اپنی ایک الگ روش پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت ہم رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کے شب و روز میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں اور برکتوں سےبھر پور فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس وقت پوری کائنات اللہ کے بندوں کی تسبیح و تحلیل اور اس سے راز و نیاز کی خنک ریز سرگوشیوں سے مامور ہے۔ لیکن کیا ہم نے اس بات پر غور کیا یا توجہ دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر روزے کو کیوں فرض قرار دیا، آخر اُ س بےنیاز ذات کو اپنے بندوں سے ایسی کونسی غرض وابستہ تھی کہ جس کی وجہ سے اس نے اپنے بندوں کو روزے جیسی اعصابی و ذہنی مشقت میں مبتلا رہنے کا حکم دیدیا، کیا وہ بغیر روزے اور نماز کے اپنے بندوں کو آخرت کی پُرتعیش سہولیتیں فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ اس بات سے کسی کوانکار نہیں کہ وہ ’’علی کل شئی قدیر ‘‘ ہے۔ لیکن اُ س نے اپنے بندوں پر روزے کو فرض قرار دے کر ہمارے معاشرے میں قائم طبقاتی نظام کی خلیج کو پُر کرنے کے لئے روزے کی شکل میں ایک لائحہ عمل کو ترتیب دیا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد ہونی چاہئے کہ اگر ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہمارے معاشرے میں غربت کی انتہائی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے افرادکی بھوک اور پیاس کا ہمیں خیال ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ہماری ذاتی و اجتماعی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی فرد غربت و افلاس کی وجہ سے خودکشی یا فاقوں کی اذیت سے دم نہ توڑنے پائے۔ اگر آپ روزہ رکھتے ہیں اور آپ کا پڑوسی اور اس کے بچے اپنی غربت کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبورہیں اور آپ اس کی استعانت کرنے سے صرف نظر فرمارہیں تو یاد رکھو تمہارا روزہ اور تمہاری عبادات کا کوئی ماحصل نہیں، ایسی عبادات بروز حشر تمہارے منھ پر مار دی جائیں گی۔

اسلام کی تمام عبادات وہ چاہے جس شکل میں ہوں اگر ان کے فرائض کی دائیگی سے روح پر طاری انجمادی کیفیت کو توڑ کر اگر آپ اندر تحریک پیدا کررہی ہیں، اور دنیا کے کسی بھی خظہ میں ہونے والے ظلم کے خلاف آپ کے اندر پوشیدہ استقامتی قوت کو متحرک کرتی ہیں، اور اپنےقومی و ملی حقوق کی بازیابی کے لئے جرات اظہار کا حوصلہ دیتی ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ آپ نے عبادت کی اصل روح کا ادراک کر لیا ہے۔ اس لئےروزہ بنام رمضان محض خود کو بھوکا اور پیاسے رکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ مہینہ خود احتسابی کے ساتھ ظلم کے خلاف تجدید عہد کا نام ہے۔ لیکن مسلمان قوم اسلام کے لئے ایک ایسا المیہ بن چکی ہے جس کا اظہار سوائے تاسف کے اور کچھ نہیں، چونکہ یہ قوم پوری دنیا میں اپنے ہی خلاف ہورہی جارحیت کے خلاف کل بھی چپ تھی، آج بھی چپ ہے اور کل بھی چپ رہنے کے امکان زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا میں اپنی بات کا اختتام اپنے اس شعر پر کرنا چاہتا ہوں۔

ابھی تو پابند مصلحت ہیں یہ تیرے جذبے اطاعتوں کے

تری طبیعت میں اے مسلماں نمودِ پیغمبری نہیں ہے