1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. شائستہ مفتی/
  4. شیر

شیر

شام کے ملگجے اندھیرے، بر آمدے میں جلتے ہوئے چھوٹے سے بلب کو اپنی بھرپور موجودگی سے احساس کمتری میں مبتلا کر رہے تھے۔ شازیہ مغرب کی نماز پڑھ کر کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی، آج بھی اِنہیں دیر ہوگئی۔ اُس نے دل میں سوچا، وہ مڑنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک اُسے وہ پھر نظر آگیا۔۔

خوف کی سنسناہٹ سے اُس کا پورا وجود کانپ گیا، بھورے رنگ کا خود اعتمادی سے چلتا ہوا، اس کی آنکھوں کی وحشت اُس کے پورے وجود کا احاطہ کیے ہوئے تھی، وہ چیخنا چاہتی تھی مگر یہ چیخ جیسے اُس کے وجود میں کہیں گونج کے رہ گئی، زبان کہ جیسے گنگ ہو کر رہ گئی، دل نے ایک کمزور سی دلیل دی کہ شاید یہ واہمہ ہے مگر نہیں، یہ تو وہی ہے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے، سنہرے بال اندھیرے میں بھی اُس کی طاقت اور مطلق العنانی کا اعلان کر رہے تھے۔

ہاں یہ وہی شیر ہے جو اکثر اُسے اپنے گھر میں نظر آتا ہے، بغیر اجازت گھر میں نمودار ہو کر اچانک ہی کہیں غائب ہو جاتا ہے، یہ کیا معمہ ہے وہ اِسے حل کرنے سے قاصر تھی پھر کوشش کے باوجود وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کر سکی، اُسے فکر تھی تو اپنے بچوں کی جو شاید لاؤنج میں بیٹھے تھے، اپنا ہوم ورک کر رہے تھے۔

اگر غلطی سے کوئی باہر آ گیا، اِس سے زیادہ وہ کچھ نہیں سوچ سکی، پیشانی پسینے سے تر ہوتی جا رہی تھی اور ذہن ماؤف ہوتا جا رہا تھا، اچانک ہی کسی نے دور سے آواز دی جیسے کوئی خواب میں اُسے بلا رہا ہو۔۔

شازیہ۔۔ شاذیہ۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں، اُٹھنا نہیں ہے کیا، بچوں کو دیر ہو رہی ہے، میرا ناشتہ کون بنائے گا؟

اُف میرے خدایا! یہ خواب تھا! وہی خواب جس نے اُسکی نیند کی پرُ کیف وادی کو تہ و بالا کر ڈالا تھا۔

وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ رات بھر سونے کے باوجود اُس کا جسم تھکن سے ٹوٹ رہا تھا، گھڑی پر نظر پڑتے ہی گویا بدن میں ایک بجلی سی کوندگئی، اتنی دیر۔۔ جلدی جلدی بچوں کو اُٹھایا اور ناشتہ بنانے کے لیے کچن کی راہ لی۔

وہی روکھی پھیکی زندگی، جب سب چلے گئے تو اُسے پھر اپنا خواب یاد آیا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک ہی خواب بار بار کیوں آتا ہے؟ کیا کسی سے ذکر کروں؟

نہیں نہیں! ہر گز نہیں! خاموش رہنا بہتر ہے، ہو سکتا ہے یہ خواب خود بخود تحلیل ہو جائے جاتے جاتے صاحب نے تنبیہ کے انداز میں کہا تھا، گھر کا خیال رکھنا، بچوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے دینا۔

یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے، وہ صرف سوچ کر رہ گئی، اُن کے جانے کے بعد وہ سوچنے لگی اگر میرے شوہر کی نوکری اس قدر اہم نہ ہوتی تو وہ بھی اپنی زندگی کا کوئی مصرف ضرور ڈھونڈ لیتی مگر صد افسوس ہم دونوں میں سے کسی ایک کو تو گھر اور بچوں پر بھر پور توجہ دینی ہی ہے، گھر کے اطراف نظر دوڑائی تو تنہائی کا آسیب اُ س کا منتظر تھا، تنہا شامیں، تنہا دن! اتنا پڑھنا لکھنا اُس کے کسی کام نہ آیا پھر کہیں سے اُس کو اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے الفاظ یاد آئ، تم تو بہت خوش نصیب ہو۔۔

ہاں! شاید ہوں! اُس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر سوچا۔

کام کاج سے فارغ ہو کر اُس نے اپنی پسندیدہ کتابوں کے شیلف کا رُخ کیا اور کوئی کتاب منتخب کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر آج شاید تنہائی میں صرف سوچنے کو دل چاہ رہا تھا۔ شلف کے سامنے وہیں ٹھنڈے فرش پر لیٹ گئی اور کتابوں پر نظر ڈالی، اِن میں سے کچھ کتابیں وہ بار بار پڑھ چکی تھی، اب تو شاید یہی ایک واحد سہارا تھیں، اِن کتابوں کی موجودگی اُسے احساس دلاتی رہتی کہ تم ہو۔۔ تم یقیناً ہو، یہیں کہیں ہو۔ ایک عجیب سی مسرت نے پھر اُسے اپنی آ غوش میں لے لیا۔

اچانک ہی اُسے رات کا خواب یاد آ گیا، گھر کی تنہائی میں خوف کا عنصر شامل ہو نے کی دیر تھی کہ خواب اورحقیقت کے درمیان حدِ فاصل کا تعین کرنا مشکل ہوگیا، جلدی سے اُٹھ کر اُس نے باہر برآمدے میں جھانکا، کوئی نہیں تھا، کوئی شیر نہیں تھا۔۔

لاحول ولا قوۃ۔ یہ کن خرافات میں ذہن الجھ جاتا ہے۔

ایک ہفتہ بعد شوہر واپس آئے تو اُس پر سولات کی بوچھاڑ کر دی، تم کہاں گئیں تھیں؟ میرے پیچھے کون کون آیا تھا؟ کوئی چیز ٹوٹ تو نہیں گئی؟

آخر آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ اُس نے پوچھ ہی لیا۔

پھر ہمت کرکے پوچھا کہ امی کے گھر جانا ہے۔ وہاں سے جواب آیا، ابھی تو گئی تھیں۔

کب؟ پچھلے مہینے؟ ہاں! مگر پھر جانے کو جی چاہ رہا ہے۔

اچھا بھئی چلی جانا کسی روز، ابھی میں بہت مصروف ہوں، چائے کی طلب ہو رہی ہے پلیز بنا دو۔

اچھا، وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔

یہ خوشگوار زندگی کا دسواں سال تھا، سب یہی کہتے ہیں، اُس نے دوسروں کے نقطہ نظر سے سوچا! کیا میں بھی ایسے ہی سوچتی ہوں؟ اِس سے آگے اُس نے اپنے آپ کو سوچنے کی اجازت نہیں دی اور کچن کی راہ لی۔

پھر ایک رات وہ خواب کی دنیا کا شیر خواب کی دنیا سے نکل کر اُس کے بیڈروم میں گھس آیا اور آرام سے ٹہلنے لگا، شازیہ کی حالت پھر غیر ہونے لگی۔ شوہر کو آواز دینا چاہی مگر گلا جیسے رُندھ گیا، جسم و جان کا تعلق جیسے ٹوٹ گیا، اُس شیر کی آنکھوں کی وحشت اُس کے پورے وجود پر فالج کی طرح گری، قریب تھا کہ اُس کا دل بند ہو جاتا کہ اچانک بے خیالی میں اُس کے شوہر کا ہاتھ سوتے میں ہی اُس پر پڑ گیا اور وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی۔

کمرے میں کوئی نہیں تھا، رات کا پچھلا پہر تھا، چاند بیچ آسمان میں ستاروں کے بیچ اپنی سج دھج دکھا رہاتھا، سارا عالم نیند میں ڈوب چکا تھا، یہ بے کلی کیا ہے؟ جی چاہتا ہے کہ آرام آسائش چھوڑ کر کہیں جنگل میں ڈیرہ ڈال لیا جائے مگر میں تو بہت خوش ہوں، سب یہی کہتے ہیں، اچھا گھر بار ہے، بچے ہیں، خیال رکھنے والا شوہر ہے، کوئی کمی نہیں، کوئی کمی نہیں۔۔

آخری جملے کی گونج جیسے اُس کے دل کے کسی نہاں خانے سے ٹکرا کر واپس آ گئی وہ کھڑکی سے ہٹ کرکونے میں پڑی ہوئی میز کی طرف آئی، گلاس اُٹھا کر پانی پیا، ٹیبل لیمپ جلا کر کاغذ قلم اُٹھایا اور ڈائری میں اپنی سوچوں کو بڑی رفتار سے الفاظ کے قالب میں ڈھالنے لگی، اچانک ہی اُسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔ شیر! خوف کے مارے خون جیسے کہ رگوں میں منجمند ہوگیا ہو۔

یہ کیا لکھ رہی ہو؟

اُس کے شوہر کی خفگی بھری آواز نے رات کے سناٹے میں تلاطم برپا کر دیا، اُف میرے خدا! شوہر کی آواز سن کر اُس کی جان میں جان آئی، میں بھی کتنی بے وقوف ہوں بھلا خواب کی دنیا سے بھی کوئی باہر آ سکتا ہے؟ اُس نے پلٹ کر دیکھا تو اُس کا شوہر حیران اور کسی حد تک ناراض نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

وہ! نیند نہیں آ رہی تھی۔

نیند نہیں آ رہی ہے تو نیند کی گولی کھا لو مگر روشنی کرکے میری نیند خراب نہ کرو۔

ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں، بیچارے سارے دن کے تھکے ہوئے ہیں۔

اُس نے فوراً روشنی گل کر دی اور بستر پر لیٹ کر اندھیرے میں چھت کو گھورنے لگی، نیند آنکھوں سے کو سوں دور تھی اور کچھ ہی دیر بعد فجر کی اذان فضاؤں میں گونجنے لگی۔

اُس کے خوابوں کے مطلق العنان شیر کی حکمرانی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ پریشان تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے، کسی سے کچھ کہنا بھی مشکل تھا کیونکہ سب ہی کہتے تھے کہ اتنی اچھی زندگی گزار رہی ہے، اچھا گھر بار ہے، بچے ہیں، خیال رکھنے والا شوہر ہے۔۔

ایک دن وہ اپنے سسر کی کتابوں کی الماری صاف کر رہی تھی کہ اُسے ایک کتاب ملی جس نے اُس کو چونکا دیا، عنوان تھا خوابوں کی تعبیر، کتاب بہت بوسیدہ تھی، ارے یہ کیا؟ کیا خوابوں کی بھی کچھ حقیقت ہو تی ہے؟ یہ تو کبھی اُس نے سوچا ہی نہ تھا۔ پرانی اور دھول میں اَٹی ہوئی کتاب جھاڑ پوچھ کر اُس نے اپنے سرہانے رکھ لی، ارادہ تھا کہ سونے سے پہلے ضرور پڑھنے کی کوشش کرے گی، سارے دن کا کام بخوبی نمٹانے کے بعد اُس نے جب اپنے آپ کو بستر پر گرایا تو شہتیر کی تھکن جسم میں عود آئی، ذہن بوجھل سوچوں سے تھک چکا تھا۔

کھڑکی کے باہر بلب کی مدھم روشنی پر پروانے دیوانہ وار اپنا تن من لٹا رہے تھے، جل جل کر بھی شمع کے ساتھ رہنا چاہ رہے تھے، یہ کیسی محبت ہے؟ جل جل کر رہنا اور ساتھ نہ چھوڑنا؟

یہ کون ہے؟ اچانک اُسے پھر کھڑکی کے باہر دو وحشت ناک آنکھیں نظر آئیں۔۔ شیر!

یہ حقیقت کی دنیا میں کیسے آ گیا؟ اُس نے پوری قوت سے چیخ ماری، پورا گھر دوڑ کر کمرے میں آ گیا بیٹی نے بڑھ کر پانی پلایا تو بمشکل اُسکی زبان سے صرف ایک لفظ نکلا۔۔ شیر! شیر!

یہ کیا حماقت ہے؟ اُس کے شوہر نے گرج کر کہا۔

شیر کہاں سے آ گیا اور پھر یکدم اُسے اپنے شوہر کی آنکھوں میں کسی کی مشابہت نظر آئی، وہی تکبر، وہی وحشت۔۔

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟ اپنے چہرے پر آئے پسینے کو دوپٹہ سے پونچھ کر وہ حواسوں کو مجتمع کرکے اُٹھ بیٹھی، جب سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے کتاب خوابوں کی تعبیر، اُٹھائی اور ورق گردانی شروع کر دی، الفاظ گویا آنکھوں کے سامنے سے پھسل رہے تھے مگر کہیں بھی نظریں نہیں ٹھہر رہی تھیں، اچانک ایک لفظ نے اُس کی توجہ اپنی جانب مرتکز کر لی۔۔

شیر۔۔ کیا شیر دیکھنے کی بھی کوئی تعبیر ہوتی ہے، لفظ شیر کے نیچے جو عبارت تحریر تھی اُس کو پڑھنے کے بعد اُس پر یہ منکشف ہوا کہ شیر کو خواب میں دیکھنا اپنے ہی گھر میں دشمن دیکھنے سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر میرا توکوئی دشمن نہیں ہے۔ اُس نے حیرت سے سوچا۔ توپھرمیں کیوں شیر دیکھتی ہوں۔

یہ ایک سوال دھمال کی دھمک کی طرح اُس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا تھا، میں تو ایک بہت ہی خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں۔ سب ہی یہ کہتے ہیں، اچھا گھر بار ہے، بچے ہیں، خیال رکھنے والا شوہر ہے۔

مگر یہ دھمال جو کہیں دور ہو رہا تھا اُس کی دھمک وہ اپنے دل میں محسوس کر رہی تھی، دو وحشت زدہ آنکھیں اُس کا پیچھا کر رہی تھیں، اُس کو لگا شاید وہ جنگل میں کہیں بھٹک گئی ہے اور وہ جہاں جاتی ہے وہ آنکھیں اپنی وحشت کے تیر اُس پر برسا رہی ہیں۔

اور پھر سچ مچ ہوا یوں کہ وہ شیر اُس کی خوابوں کی دنیا سے نکل کر اُس کی زندگی میں داخل ہوگیا، وہ جہاں ہوتی وہ شیر بھی وہیں ہوتا، کبھی کچن میں، کبھی بیڈ روم میں، کبھی اسٹڈی میں، کتابوں کے شلف میں، گھر میں لگی ہر پینٹنگ میں۔۔ اور اب شاید وہ ان وحشت زدہ آنکھوں سے سمجھوتہ کر بیٹھی تھی کیونکہ سب ہی کہتے تھے کہ تو قسمت کی بڑی دھنی ہے، اچھا گھر بار ہے، بچے ہیں۔۔

گھر بھر کے کام نمٹا کر کتابوں کے شلف کے سامنے ٹھنڈے فرش پر جب وہ لیٹ جاتی تو وہ شیر بھی خراماں خراماں اُس کے برابر آ کر لیٹ جاتا اور وہ خوف و اذیت سے اپنی آنکھیں بند کر لیتی کیونکہ یہ خوف اور یہ وحشت ہی شاید اب اُس کی ہستی کا حصہ بن چکا تھا، اُس کا ہم سفر تھا۔