1. ہوم
  2. افسانہ
  3. شائستہ مفتی
  4. آوارہ بادل

آوارہ بادل

وہ بہت دیر سے ایک چٹان پر بیٹھ کر موجوں کا نظارہ کر رہا تھا۔ سمندر کو دیکھتے دیکھتے ایک عمر گزر گئی، موجوں کے ایک تسلسل سے آتے جاتے مناظر اُسے کبھی بور نہ کر سکے، آج صبح ہی ایک پینٹنگ ختم کی تھی۔ ذہن جیسے پر سکون اور خالی خالی محسوس ہو رہا تھا۔ سمندر کے کتنے روپ ہیں، ہر روپ نرالا اور اچھوتا ہے، سمندر کبھی تو ایک الہڑ دوشیزہ کا روپ دھار لیتا ہے تو کبھی خوفناک دیو بن جاتا ہے، سمندر کو تکتے تکتے اُسے کبھی بھی احساسِ زیاں نہ ہوا تھا، پتھریلے چٹانوں والے اس جزیرے پر رہتے ہوئے اُسے کئی سال بیت گئے تھے مگر اُسے کبھی بھی احساسِ تنہائی نہ ہوا تھا، سمندر سے عشق کی کہانی اب بہت پرانی ہو چکی تھی مگر یہ عشق ابھی تک کسی گلاب کی طرح ترو تازہ اور حسن افروز تھا۔

کبھی کبھار اپنی ضرورت کی چیزیں لینے بازار بھی جاتا تھا جس کے لیے اُس کے پاس ایک چھوٹی سی کشتی تھی، ضرورت کی خرید و فروخت کے بعد وہ جلد از جلد واپس اپنے جزیرے پر آ جاتا لوگوں کے ہجوم سے اُسے وحشت ہوتی تھی، وہ اپنے آپ کو خدا کی کوئی الگ ہی مخلوق سمجھنے لگا تھا، ضرورت کی اشیاء ذخیرہ کرنے کے بعد وہ بہت عرصہ کے لیے دنیا کو بھول کر موجوں کی دنیا میں گم ہو جاتا، نوکیلی چٹانوں کے اُس پار لکڑی کا ایک چھوٹا سا کیبن اُس نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا۔ میرا چھوٹا سا آشیانہ، اُس نے مڑ کر یکبارگی اپنے رین بسیرے پر نظر ڈالی اور دوبارہ موجوں میں کھو گیا، ڈوبتے سورج کی قرمزی کرنیں سمندر پر اپنے رنگوں کی بوچھاڑ کر رہیں تھیں، دل ہی دل میں اُس نے اپنی اگلی پینٹنگ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

اچانک اُس کی نظر ایک کشتی پر پڑی جو دھیرے دھیرے اُس کے جزیرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ارے یہ کون؟ وہ حیران نظروں سے کشتی کی جانب دیکھنے لگا۔ اُس سے ملنے آج تک کوئی اس جزیرے کی جانب نہ آیا تھا پھر آج یہ کون؟ کشتی ذرا قریب آئی تو اس نے غور سے آنے والے کو دیکھا ارے یہ تو وہ دُکان دار ہے جہاں سے وہ پینٹنگ کا سامان خریدتا ہے مگر یہ آج یہاں کیوں؟ بہت سے سوال اُس کے ذہن میں کھلبلی مچانے لگے۔ کشتی ایک نوکیلی چٹان کے پاس رک گئی تھی۔ آگے جانے کا راستہ نہیں تھا۔

دکان دار نے زور سے اُسے آواز دی: بیٹھے دیکھتے ہی رہو گے یا میری اُترنے میں مددبھی کرو گے؟

اوہ، اُسے جیسے ہوش آ گیا اور وہ جلدی جلدی نیچے اُترنے لگا، نیچے آکر اُس نے کشتی کو ایک محفوظ جگہ باندھ دیا اور ہاتھ بڑھا کر مسافر کو اُترنے میں مدد دی۔ کپڑے جھاڑتا ہوا مسافر اُس کے ساتھ اوپر چڑھ آیا۔ کیبن کے پاس پہنچ کر وہ سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا:

مجھے ناصر کہتے ہیں۔ مسافر نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا۔

وہ جواباً سوچنے لگا کہ مجھے کیا کہتے ہیں؟ اور پھر اچانک ہی اُسے اپنا نام یاد آیا جی مجھے فراز کہتے ہیں۔

معلوم ہے مجھے، اُس نے بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام لیا۔

اندر چلیں یا باہر ہی باتیں کریں گے؟ فراز نے کیبن کا دروازہ کھول کر مسافر کو اندر جانے کا رستہ دیا۔

کیبن کے مختصر سامان میں صرف ایک میز، ایک کرسی اور ایک بستر شامل تھا۔ ایک کونے میں کینوس کا انبار لگا تھا، کچھ تصاویر اُس نے ٹانگ رکھی تھیں، ہر طرف سمندر کے مختلف اور منفرد نظارے تھے۔

بہت خوب۔ ناصر بے ساختہ کہہ اُٹھا۔

فراز نے اچانک ایک بے چینی سی محسوس کی، وہی بے چینی جو اُسے دیگر انسانوں سے تھی۔

کیا میں آپ کے آنے کی وجہ جان سکتا ہوں؟ آخر کار اُس نے سوال کر ہی ڈالا۔

ناصر نے کچھ تامل کے بعد جواب دیا: تمہیں کوئی ڈھونڈ رہا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ تم ہی ہو۔

اچھا! کون بھلا؟ میرا تو اس دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں، ماں کو گزرے زمانہ بیت گیا، دور کے رشتہ داروں کو کبھی میری یاد نہ آئی، پھر مجھے کون ڈھونڈ سکتا ہے؟

شگفتہ۔ ناصر نے بلا تا مل ڈھونڈنے والے کا نام اُس کے سامنے لے دیا۔

شگفتہ؟ ایک دم سے جیسے کوئی معطر ہوا کا جھونکا اُس کے لمبے لمبے بالوں میں الجھ کر رہ گیاَ ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں اُس کا ماتھا چومنے لگیں، قریب تھا کہ وہ ماضی بعید کی یادوں میں کھو جاتا مگر ناصر بڑی بے نیازی سے گویا ہوا۔

شگفتہ روز آتی ہے میری دکان پر اور تمہارے جیسے ایک انسان کے بارے میں پوچھتی ہے، وہ کہتی ہے کہ اگر تم زندہ ہو تو ضرور پینٹ کرتے ہوگے اور قریباً پچیس سال پہلے اُس نے تمہیں اسی علاقے میں دیکھا تھا، ایک تم ہی ہو جو میری دکان سے وافر مقدار میں رنگ اور مٹی کا تیل لے کر مہینوں کے لیے غائب ہو جاتے ہو، بندر گاہ سے پتہ چلا کہ تم اس طرف کسی جزیرے پر رہتے ہو، کچھ تگ ودو کے بعد آخر تمہارا پتا چل ہی گیا۔

ناصر نے پہلو بدل کر اُس کی جانب اِک نگاہِ غلط انداز ڈالی اور پوچھا: شگفتہ تمہاری کیا لگتی ہے؟

کچھ نہیں، کچھ بھی تو نہیں، وہ گڑ بڑا گیا، مگر پھر ہتھیار ڈال کر کہنے لگا: بہت سال پہلے یہ لڑکی میرے پاس پینٹنگ سیکھنے آتی تھی، پھر شاید اُس کی شادی ہوگئی پھر معلوم نہیں کیا ہوا؟

پھرفراز نے ناصر سے سوال کیا: شگفتہ میرا کیوں پو چھنے آئی تھی، تم کیوں اُس کے کہنے پر یہاں آئے ہو؟

شگفتہ کہتی ہے کہ اگر تم نے اُس سے رابطہ نہیں کیا تو شاید وہ اپنی جان دے دے گی۔

ناصر نے جواب دیا۔ فراز نے قطعی انداز میں کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میرا شگفتہ سے کوئی تعلق نہیں۔

ناصر نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا: یا رتم عجیب آدمی ہو، کسی کی جان پر بنی ہے اور تم کہتے ہو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تمہیں کچھ پتہ بھی ہے، اُس بے چاری پر کیا گزری، شادی کے بیس سال بعد اُس کے شوہر نے ایک نوخیز لڑکی کی خاطر اُسے چھوڑ دیا۔

فراز کچھ دیر ناصر کو خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر ہلانے لگا، انسانوں سے دور رہ کر وہ شاید انسانی جذبات سے عاری ہو چکا تھا، اُس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر سمندر کو دیکھا اور پھر سر کھجاتے ہوئے کہنے لگا: پھر میں کیا کروں؟

ناصر نے کہا: شگفتہ تم سے صرف ایک دفعہ ملنا چاہتی ہے۔

مگر میں نہیں ملنا چاہتا۔ فراز اپنے لہجے کی چبھن پر خود بھی حیران رہ گیا۔

میرا آپ لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے، مجھے میری دنیا میں رہنے دیں۔

ناصر نے اپنے لہجے میں نرمی لاتے ہوکہا: دیکھو فراز! اِس میں کچھ ہرج نہیں، بس ایک دفعہ شگفتہ سے فون پر بات کر لو۔

فراز خالی خالی نظروں سے چھت کو دیکھنے لگا: شگفتہ۔۔

اُس کے تصور میں اُس کی شکل کا کوئی حوالہ نہ بن سکا، اُسے بس اتنا یاد ہے کہ وہ پھولوں کی طرح نرم و نازک اور معطر وجود رکھتی تھی، شعور اور لاشعور کی کسی بھی منزل پر اب اُس کا کوئی نشان باقی نہ تھا۔

ناصر نے اپنا موبائل فون نکالا اور اُس پر کوئی نمبر ڈائل کیا اور فراز کے ہاتھ میں تھما دیا۔

فراز پہلے تو موبائل کو گھورتا رہا پھر ہچکچاہٹ کے ساتھ کان پر لگایا۔ دوسری طرف ایک نسوانی آواز جرس کی طرح کھنکتی ہوئی محسوس ہوئی۔

میں فراز۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔

شگفتہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی، صرف ایک دفعہ ملنے کا وعدہ لینا چاہتی تھی، فراز نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ناصر کو دیکھا۔ ناصر نے ہمت دلاتے ہوئے کہا:

کچھ کہہ دو نہ یار! بڑی دُکھی عورت ہے۔

فون بند کرنے سے پہلے فراز نے صرف جی جی کہا اور ملنے کا وعدہ کر لیا۔ ناصر نے کہا:

تم ابھی میرے ساتھ چلو، صبح ہوتے ہی تمہیں شگفتہ کے گھر لے چلوں گا، میرے پڑوس میں ہی رہتی ہے۔

فراز نے اپنے کیبن سے باہر آتے ہوئے رضا مندی ظاہر کر دی، دونوں نے کشتی کھولی اور رات کے کھلے آسمان تلے کشتی کو کھینے لگے، آسمان پر اکیلا چاند اور اَن گنت تارے اُن دونوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے، سمندر کی اَتھاہ خاموشی میں چپو چلنے کی آواز ایسے آ رہی تھی جیسے تواتر سے کوئی ریشم بن رہا ہو اور سمندر ایک ریشمی چادر کی طرح جھلملا رہا تھا۔ دوسرے کنارے پر پہنچ کر کشتی کو ایک شہتیر سے باندھا اور خاموشی سے ایک جانب چل دیے۔ ناصر فراز کو لیے اپنے گھر پہنچا تو اُس کی بدمزاج بیوی نے منہ بنا کر کہا:

دو آدمیوں کا کھانا نہیں ہے، بازار سے روٹی لے آو۔

فراز نے فوراً معذرت کر لی مجھے بالکل بھوک نہیں ہے۔ ناصر نے ہچکچاتے ہوئے کہا:

تمہیں بر آمدے میں سونا ہوگا۔ فراز نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا: کوئی مسئلہ نہیں۔

صبح صبح بارش کی ہلکی سی پھوار سے فراز کی آنکھ کھل گئی، ہر چیز نکھری نکھری تھی، بر آمدے میں لگی پھولوں کی بیلیں صبح کی ہوا میں بھینی بھینی خوشبو پھیلا رہی تھیں۔

فراز نے مسکرا کر آنکھیں کھولیں اور ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالی:

شگفتہ۔ اُس نے زیرِ لب دُہرایا تو اُسے میں یاد آہی گیا۔ کچھ ہی دیر میں ناصر ناشتہ کی ٹرے لے کر آ گیا، دونوں نے ساتھ ناشتہ کیا۔ ناصر نے کہا: چلو اب چلتے ہیں۔

فراز خاموشی سے اُس کے ساتھ ہو لیا، کچھ دیر گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد وہ ایک درمیانے درجے کے مکان کے سامنے رک گیا اور بیل پر انگلی رکھ دی۔ ایک لڑکے نے دروازہ کھولا اور ناصر کو دیکھ کر راستہ دے دیا۔ فراز بھی ناصر کے ساتھ گھر میں داخل ہوگیا، بیٹھک کی دیوار پر تصاویر آویزاں تھیں، فراز نے دیوار پر لگی شگفتہ کی تصویر کو لمحہ بھر میں ہی پہچان لیا، کیا دن تھے وہ بھی، زندگی تو بھی کھیل کھیلتی ہے انسان کے ساتھ۔

آہٹ ہوئی تو اُس نے مڑ کر دیکھا ایک ادھڑ عمر عورت جس کے چہرے پر جانی پہچانی مسکراہٹ تھی سامنے کھڑی تھی:

مجھے یقین تھا کہ تم ایک بار ضرور آو گے۔ عورت کے بے تکلفانہ انداز سے فراز نے اُسے پہچان لیا

شگفتہ ہیں نا آپ؟

جی جی۔ اُس نے جواب دیا: اتنے سالوں کے بعد کیسے یاد کیا آپ نے؟

کچھ حساب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

کون سا حساب؟ فراز نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا

میں شاید کچھ زیادتی کر گئی ہوں آپ کے ساتھ۔ شگفتہ نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔

قدرت بھی عجیب امتحان لیتی ہے ہمارے ساتھ، زندگی کے بیس سال گزارنے کے بعد میرا جیون ساتھی ایک کم عمر لڑکی کی خاطر مجھے تنہا چھوڑ گیا تو مجھے یاد آیا کہ میں نے بھی آپ کو تنہا کر دیا تھا۔ قدرت اپنا حساب چکتا کیے بغیر نہیں رہتی۔ شگفتہ نے اپنے ہونٹ دانتوں تلے دباتے ہوئے کہا۔

فراز نے ذہن پر زور ڈالا کہ ایسا کیا ہوا تھا اور ایک لفظ ہتھوڑے کی طرح اُس کے ذہن پر برس گیا

آوارہ۔

کسی کی نخوت بھری آنکھیں مگر آج اُن آنکھوں میں پشیمانی دیکھ کراُسے بڑی حیرت ہو رہی تھی۔ انسانیت کے ناطے فراز نے شگفتہ کو بہتر محسوس کرانے کے لیے کہا:

ارے نہیں! مجھے تو کچھ یاد نہیں، آپ ایسا کوئی خیال نہ کریں میرے دل میں آپ کے لیےکدورت نہیں، میں سچ مچ ایک آوارہ منش انسان ہوں۔

شگفتہ نے نظریں جھکا کر کہا:

نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے بہت زیادتی کی تھی آپ کے ساتھ۔۔

فراز نے اپنے دل میں کنول کھلتا ہوا محسوس کیا، ایک ایسا کنول جو تالاب کی تہہ سے اچانک ہی سطح آب پر نمودار ہوگیا تھا، بھولی بسری خواہش نے پھر انگڑائی لی کہ جیسے بہار کہیں قریب سے گزری ہو۔

شگفتہ نے اُسے بیٹھنے کا کہا اور چائے بنانے اندر چلی گئی، ناصر اُسے خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوگیا، فراز اپنے دھیرے دھیرے سلگتے جذبات پر حیران ہو رہا تھا، سوچ رہا تھا کہ اب تک میں کیسے زندگی گزار رہا تھا، کیا وہ ایک خواب تھا یا پھر یہ ایک خواب ہے؟

شگفتہ چائے کی ٹرے لے کر آ گئی، دونوں ساتھ ساتھ چائے پیتے جاتے اور بیتے ہوئے کل کی یادیں دُہراتے جاتے، یادیں جو سمندر کی موجوں میں کہیں کھو گئیں تھیں، فراز تو جیسے ہنسنا بھول ہی گیا تھا پھر سے کھکھلا کر ہنسا تو خود پر حیران رہ گیا، شام تک وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ فراز کو کچھ بے چینی محسوس ہوئی کہ اُسے چلنا چائیے، مگر کہاں؟ اُس کا تو کوئی گھر ہی نہ تھا پھر بھی اخلاقاً فراز نے شگفتہ سے رخصت چاہی اور اگلے دن پھر واپس آنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔

جانا کہاں تھا یوں ہی بازار میں آوارہ پھرتا رہا، آوارہ جیسے بادل، جہاں ہوا لے جائے، ایک چھابڑی والے سے پکوڑے خریدے اور لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوگیا، وہی بھیڑ جس کا وہ عادی نہ تھا، انسانوں سے اُسے وحشت ہوتی تھی مگر آج ایسا نہ تھا، ہر طرف گہما گہمی تھی۔

اچانک بھیڑ میں اُسے ناصر نظر آیا جو شاید گھر لوٹ رہا تھا، ناصر نے فراز کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور اپنے ساتھ آنے کو کہا: کہاں جاؤ گے، آج تو سمندر میں طغیانی ہے، میرے گھر پر ہی ٹکے رہو۔

اگلے دن وہ پھر شگفتہ کے گھر پہنچ گیا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی تنہائیاں مٹانے کی کوشش کرتے رہے، اِسی طرح ایک ماہ گزر گیا، شگفتہ کی آنکھیں سمندر کی طرح گہری تھیں، خواب میں بھی وہ فراز کا تعاقب کرتیں۔

ایک دن وہ صبح کو جب شگفتہ کے گھر پہنچا تو دروازے پر کسی اجنبی کو پا کر حیران رہ گیا:

آپ کون؟ یہی سوال میں پوچھنے والا تھا، اجنبی نے تڑخ کر جواب دیا۔

شگفتہ! اجنبی نے زور سے آواز لگائی یہ کون آوارہ آدمی ہے؟

شگفتہ اندر سے نمودار ہوئی اور اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:

میں نہیں جانتی، شاید کوئی مسافر راستہ بھول گیا ہے۔ فراز کو لگا جیسے کسی نے اُسے گہری نیند سے جھنجھوڑ کر اُٹھا دیا ہو، اُس نے اپنے حلیے پر نظر ڈالی تو خستہ حال لباس اُس کی بے سرو سامانی کا رونا رو رہا تھا۔

شگفتہ کا شوہر واپس آ گیا تھا، شاید اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ یکلخت فراز مڑا اور دوڑتا ہوا بندر گاہ کی طرف بھاگا، راستے میں بازار آیا مگر وہ کہیں نہیں رکا، بندر گاہ پہنچ کر اُس نے ایک کشتی میں بیٹھ کر اپنے چھوٹے سے جزیرے کی راہ لی، آوارہ بادل آسمان پر ہوا میں تیزی سے ادھر اُدھر بھٹک رہے تھے، شاید کسی کو اپنی منزل کی تلاش تھی۔

فراز ایک بارپھر چٹان پر بیٹھا موجوں کے مدوجزر دیکھ رہا تھا: ٹھیک ہی تو کہا تھا اُس نے، میں ایک آوارہ بادل ہی تو ہوں۔