1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. شائستہ مفتی/
  4. نینی (2)

نینی (2)

اگلے دن معمول کے خلاف نینی کو کسی نے نہیں اٹھایا۔۔ نینی خود ہی اٹھ کر بڑی ماں کے گھر جانے کے لئے تیار ہونےلگی تو امی نے نینی کو تیار ہونے سے منع کر دیا۔۔ "نینی آج ہم گھر پر ہی رہیں گے۔۔ آج میں آفس نہیں جاؤں گی"۔ نینی نےبے اختیار رونا دھونا شروع کر دیا۔۔ "مجھے جانا ہے۔۔ مجھے گیلی مٹی سے کھیلنا ہے۔۔ مجھے انکل کے ساتھ کھیلنا ہے۔۔ " رورو کر نینی نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔۔ امی نے آگے بڑھ کر نینی کو گود میں لینا چاہا تو نینی نے ماں کو دھکا دے دیا۔۔ امی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں"نینی کیا ہوگیا ہے تمہیں؟" امی تو صرف اس نینی کو جانتی تھیں جو ہر بات پر "اچھا امی۔۔ " کہتی تھی یہ نینی میں کون سما گیا ہے۔۔

امی بہت دیر تک کچھ سوچ سوچ کر سر ہلاتی رہیں اور اس دوران نینی زار و قطار روتی رہی۔۔ روتے روتے نینی کی ہچکی بندھ گئی۔۔ نینی نڈھال ہو کر زمین پر لیٹ گئی۔۔ امی نے نینی کو بہت آہستگی سے گود میں اٹھایا۔۔ نینی میں مزاحمت کرنے کی سکت نہ تھی۔۔ امی نینی کو بیڈ روم میں لے آئیں اور آہستگی سے بستر پر لٹا دیا۔۔ نینی سسکیاں لے لے کر سو گئی۔۔ جب نینی کی آنکھ کھلی تو شام ہونے والی تھی۔۔ نینی نے آنکھیں ملتے ہوئے حیرت سے کھڑکی کےباہر دیکھا۔۔ نینی کا گھر کتنا اداس ہے۔۔ یہاں گیلی گیلی مٹی بھی نہیں۔۔ انکل بھی نہیں۔۔ نینی کو محسوس ہوا کہ اس کے گلے میں کچھ پھنس گیا ہے۔۔ گھٹی گھٹی سی آواز میں نینی نے امی کو آواز دی۔۔ امی بھاگتی ہوئی نینی کے لئے پانی لے کر آئیں۔۔ نینی نے محسوس کیا کہ امی کی آنکھیں کچھ زیادہ ہی لال لال لگ رہی تھیں۔۔ مانو بلی کی طرح۔۔ امی نے نینی کے سر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا۔۔ "نینی بڑی امی کے گھر پر کچھ ہوا ہے کیا؟"۔ نینی نے حیرت سے سر گھما کر ماں کو دیکھا۔۔

یہ بڑے بھی عجیب ہوتے ہیں۔۔ کچھ دنوں پہلے تک تو امی بڑی ماں کے گھر جانے کے فائدے بتا رہی تھیں اور اب یہ کیسا عجیب سوال پوچھ رہی ہیں؟ نینی نے زور زور سے سر ہلایا۔۔ " نہیں امی میں تو وہاں بہت خوش رہتی ہوں۔۔ وہاں گیلی گیلی مٹی بھی ہے اور۔۔ " امی کچھ نہ سمجھتے ہوئے نینی کو تکتی رہیں۔۔ "مگر تم تو وہاں جانا ہی نہیں چاہتی تھیں۔۔ پھر اچانک کیا ہوا؟" نینی انکل کےبارے میں بتانا چاہ رہی تھی مگر پھر اچانک ہی نینی کو انکل کی بات یاد آ گئی۔۔ "یہ انسان ہر خوبصورت چیز کو خراب کرنا چاہتےہیں۔۔ " نینی نے چور نظروں سے ماں کو دیکھا۔۔ امی بہت غور سے نینی کے بدلتے ہوئے رویے کو دیکھ رہی تھیں اور کسی نتیجہ پرپہنچنا چاہ رہی تھیں۔۔ "

دیکھو نینی میں تمھاری ماں ہوں۔۔ تم مجھ سے ہر بات کہہ سکتی ہو۔۔ میں ہوں نا تمھاری ہر بات سننےکے لئے۔۔ " نینی کو محسوس ہوا کہ امی کو بتا دینے میں کوئی نقصان نہیں۔۔ اور پھر نینی نے ہنستے مسکراتے امی کو انکل کےبارے میں بتا دیا۔۔ چاکلیٹ کے بارے میں بھی بتادیا۔۔ امی سر جھکائے سنتی رہیں اور پھر پتا نہیں کیوں امی نے چپکے چپکے روناشروع کردیا۔۔ نینی نے ڈر کر امی کی طرف دیکھا۔۔ پھر کچھ غلط کر دیا میں نے۔۔ میں کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتی۔۔ بڑی ماں ٹھیک ہی کہتی ہیں۔۔ میں بہت نالائق ہوں۔۔ نینی نے ماں کے گلے میں باہیں ڈال کر کہا۔۔ "امی نہ روئیں میں اب گیلی گیلی مٹی سے نہیں کھیلوں گی۔۔ " یہ سنتے ہی امی نے اور زور زور سے رونا شروع کردیا۔۔ نینی نے ڈر کر اپنا بھالو اٹھایا اور بیڈ کے نیچےچھپ گئی۔۔

اس رات امی اور بابا کی بہت زور زور سے لڑائی ہوئی۔۔ نینی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر بات کیا ہے؟ امی اور بابا ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے۔۔ نینی صوفے کے پیچھے سے چھپ کر بے بسی سے لڑائی رک جانے کا انتظار کرتی رہی۔۔ "نینی تم کتنی بری ہو، جہاں جاتی ہو لڑائی ہوجاتی ہے۔۔ " نینی کے بھالو نے اپنی بٹن آنکھوں سے اسے غصے سے دیکھا۔۔ بابا امی کو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ نینی بڑی ماں کے گھر نہیں جائے گی۔۔ گھر میں رہے گی اور امی بھی گھر میں رہیں گی۔۔ بابا کتنے برے ہیں، بالکل بھالو کی طرح غصہ کرتے ہیں۔۔ کچھ دن تک تو نینی امی سے ضد کر تی رہی کہ بڑی ماں کے گھر جاناہے مگر لگتا تھا کہ امی سن ہی نہیں رہی تھیں۔۔

امی اب گھر میں کسی بھوت کی طرح پھرتی رہتیں۔۔ آفس کا کام بھی نہ کرتیں۔۔ نینی کو ہر وقت بڑی ماں کے گھر کی گیلی گیلی مٹی یاد آتی۔۔ انکل کی شریر آنکھیں یاد آتیں اور چاکلیٹ۔۔ یہاں تک سوچ کر نینی رونا شروع کر دیتی۔۔ اور پھر یہ روز ہونے لگا۔۔ نینی بیٹھے بیٹھے رونا شروع کر دیتی اور روتے روتے بھالو کو سینے سے لگا کر سوجاتی۔۔ کبھی کبھی اپنے بھالو کے ساتھ گھنٹوں بیڈ کے نیچے چھپی رہتی۔۔ یہ انسان بھی عجیب ہوتے ہیں ہر خوبصورت چیز کو خراب کر دیتے ہیں۔۔ امی کھانا پکا کر نینی کی خوشامد کرتی رہتیں۔۔ "نینی آجاؤ۔ کھانا کھا لو۔۔ " نینی امی سے بھی ناراض تھی امی بھی باقی سب انسانوں کی طرح ہیں۔۔ نینی کی صحت بری طرح خراب ہو رہی تھی۔۔ بابا روز آفس سے آکر امی سےجھگڑا کرتے کہ نینی کا کوئی خیال نہیں رکھ رہا۔۔

ایک رات نینی کی آنکھ کھلی تو امی اور بابا سو رہے تھے نینی چپکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی، باہر بہت اندھیرا تھا، نینی نے آسمان کی طرف دیکھا تو ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔ "کتنا خوبصورت ہے یہ۔۔ " نینی دروازہ کھول کر گلی میں آگئی، ہر طرف ایک دلنشین ویرانی اور اداسی تھی۔۔ نینی گلی کے موڑ تک گئی۔۔ آسمان کی طرف دیکھا تو ایک ستارے نے شرارت سے نینی کو دیکھ کر آنکھ ماری۔۔ اسی لمحے نینی کو انکل کی شرارت بھری آنکھیں یاد آگئیں۔۔ نینی کوسینے میں ایک گھٹن سی محسوس ہوئی۔۔ یہ انسانوں کی دنیا بہت عجیب ہوتی ہے۔۔ ہر اچھی چیز کو خراب کر دیتے ہیں۔۔ " میں خود ہی بڑی ماں کے گھر چلی جاتی ہوں۔۔ یہی سڑک تو جاتی ہے بڑی ماں کے گھر۔۔ " نینی کو یاد آیا کہ بھالو تو گھر میں اکیلا ہی رہ گیا ہے۔۔ "بھالو کو بھی ساتھ لے لیتی ہوں"۔۔ نینی چپکے سے گھر واپس آئی اور بھالو کو لے کو باہر جانے ہی والی تھی کہ باباکی آنکھ کھل گئی۔۔ "ارے نینی۔۔ اتنی رات کو کیا کر رہی ہو؟ ادھر آؤ میرے ساتھ سو جاؤ۔۔ " نینی چپ چاپ بابا کے ساتھ لیٹ گئی۔۔ بابا کچھ ہی دیر میں پھر سو گئے مگر نینی کا ذہن باہر آسمان کے ستاروں میں کہیں الجھ کر رہ گیا۔۔

کچھ دن اور یونہی بے زاری سے سرک گئے۔۔ نینی کے وجود کو جیسے کسی آسیب نے گھیر رکھا تھا۔۔ نینی اپنے بھالو اور مانو بلی سے اپنے دل کی باتیں کرتی رہتی۔۔ صرف یہی کھلونے تھے جو نینی کا دکھ سمجھتے تھے انسان تو ہر خوبصورت چیز کوخراب کر دیتے ہیں۔۔ ایک شب امی بابا بہت دیر تک ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔۔ نینی کو محسوس ہوا کہ جیسےامی بابا کو یاد ہی نہیں کہ نینی کا بھی کوئی وجود ہے۔۔ نینی نے اپنا بھالو اٹھایا اور بیڈ کے نیچے چھپ کر چپکے چپکے آنسو بہانا شروع کر دیا۔۔ امی بابا ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو چکے تھے۔۔ رات کافی گزر چکی تھی۔۔ نینی نے بیڈ کے نیچے سے سر نکالا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بھالو کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔

نینی نے خاموشی سے گھر کا دروازہ کھولا اور بھالو کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر آ گئی۔۔ بڑی ماں کے گھر کا راستہ نینی کو کچھ کچھ یاد تھا۔۔ گلی کے موڑ پر رک کر نینی نے ذہن پر زور ڈالا۔۔ ستاروں کی روشنی میں نینی ایک طرف چلنا شروع ہوگئی۔۔ رات کو ہر چیز کتنی مختلف نظر آتی ہے۔۔ دن کے ہنگاموں میں سب کچھ کہیں گم ہو جاتا ہے۔۔ دور دور تک رات کا سناٹا پھیلاہوا تھا۔۔ اس سناٹے سے نینی کا کوئی گہرا تعلق لگتا تھا۔۔ کتنا اچھا ہو اگر نینی روز ہی رات کو چپکے سے گھر سے باہر نکل آئے اور گلیوں میں دیر تک گھومتی پھرتی رہے۔

سڑکوں کا سونا پن نینی کو اپنی بانہوں میں لینے کو بے قرار تھا۔۔ یہ انسان ہرخوبصورت چیز کو خراب کر دیتے ہیں۔۔ اس وقت کوئی انسان نہیں اسی لئے ہر چیز کتنی اچھی لگ رہی ہے۔۔ چلتے چلتے نینی کو پیاس محسوس ہوئی۔۔ بڑی ماں کا گھر آ ہی نہیں رہا تھا۔۔ ایک خالی پلاٹ سے گزرتے ہوئے اچانک ہی ایک آوارہ کتا کہیں سے نمودار ہوا اور نینی کو دیکھ کر زور زور سے بھونکنے لگا۔۔ نینی نے ایک چیخ ماری اور ایک سمت دوڑنے لگی۔۔ اس افراتفری میں نینی کا بھالو بھی کہیں کھو گیا۔۔ کتا کچھ دیر تک نینی کے پیچھے دوڑتا رہا اور پھر کہیں اور نکل گیا۔۔ نینی نے اب باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا۔۔ اس تنہا اکیلی رات میں نینی کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں تھا۔۔

امی، بابا، بڑی امی اور انکل کوئی بھی مدد کو نہ آیا۔۔ یہ انسانوں کی دنیا بھی بہت عجیب ہوتی ہے۔۔ اس سڑک کے آخری کونے پر شاید بڑی ماں کا گھر ہو۔۔ نینی نے پرامید ہو کر سوچا۔۔ اس طرف جانے کے لئے نینی کو بڑی سڑک عبور کرنا تھی۔۔ نینی نے سڑک پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ دور سے ایک بڑا سا ٹرک آتا نظر آیا۔۔ نینی نے بھاگ کر سڑک عبور کرنا چاہی تو اچانک ہی آسمان کے سارے ستارے چھن چھن کرکے نینی پر گر گئے اور نینی ہمیشہ کے لئے گیلی گیلی مٹی کے نیچے جا سوئی۔۔

ختم شد