1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. ہم متاثرینِ مطالعہ پاکستان

ہم متاثرینِ مطالعہ پاکستان

سکول کے زمانے میں میں مطالعہ پاکستان اور تاریخ بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ مجھے مسلم سلاطین اور حملہ آور بہت ہی دیو مالائی کردار لگتے تھے۔

ہارون رشید نے مامون رشید کو استاد کے پاس بھیجا اور اس نے استاد کو اگلے دن کہا کہ یا زمین ایک کاغذ کے برابر اونچی ہو گئی ہے یا آسمان ایک کاغذ کے برابر نیچے آ گیا ہے۔ سبحان اللہ کیا شخصیت تھی۔

سلطان محمود غزنوی بت شکن تھا۔ سومنات بت توڑنے آتا تھا۔ ہم سب کو بھی ایسا بت شکن بننا چاہیے۔ سبحان اللہ کیا عظیم مسلم حکمران تھا۔

اورنگزیب عالمگیر: ٹوپیاں سی کے گزارا کرتا تھا۔ قرآن کی طباعت کرتا تھا۔ کیا نیک بادشاہ تھا۔

صلاح الدین ایوبی نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ کفار کو تہ تیغ کیا۔ سبحان اللہ کیا بہادر تھا۔

سندھ کے علاقے سے مسلمانوں کی ایک بیٹی نے صدا لگائی اور سات سمندر پار محمد بن قاسم کی شجاعت کے علم کھل گئے اور اس نے آ کر وہ بیٹی آزاد کروائی۔ کیا کہنے۔ میں قربان۔

یقین جانئیے کئی بار دل کرتا تھا ان کے نام کے ساتھ علیہ السلام لگاؤں۔ ایسی عظیم شخصیات کہاں کسی اور کے پاس۔

لیکن پھر وقت کے ساتھ مطالعہ کی عادت ایسی پڑی کہ نصاب کی سرکاری کتب کے علاوہ دیگر کتب کی ورق گردانی کی تو معلوم پڑا کہ مامون وہی ہے جو اپنی باپ کی لونڈی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے فقہی احکام بدلوا کر قاضی سے فتوی لے لیا۔ غزنوی وہ تھا جس نے ملتان کی اسماعیلی مسلمانوں کی ریاست تہ تیغ کی اور ان کا قتلِ عام کیا اور پھر سومنات کا سونا لوٹنے ہر سال جاتا تھا۔ میں حیران ہوا یہ اسلام ہے یا ڈاکہ ڈالنا؟ ایوبی وہی ہے نا جس نے فلسطین سے علی ع کے ماننے والے شیعوں کاصفایا کر دیا کہ وہاں آج ایک بھی فلسطینی شیعہ نہیں؟ اور پھر اسلامیانِ پاکستان کے ہیرو محمد بن قاسم جن کے بارے کبھی ہمارے طلباء تو کیا دانشوروں نے بھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ کس ٹیکنالوجی کی بدولت دو لڑکیوں کی آواز عربوں تک پہنچ گئی؟ اور پھر اسی بن قاسم کی موت کیسے ہوئی اور پھر کیا وجہ ہے کہ خلیجی ممالک میں جہاں موسی بن نصیر، صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کے نام سے بہت جگہیں منسوب ملتی ہیں کیا وجہ ہے کسی سڑک کسی جگہ کا نام بن قاسم کے نام پر نہیں، بلکہ یہاں کوئی بن قاسم سے واقف بھی نہیں؟ سندھ سے ۴۵۰ سندھی لڑکیاں بن قاسم کیوں اپنے ساتھ غلام بنا کر لے کر گیا؟ اگر بن قاسم کی بدولت سندھ باب السلام بنا تو ٹھٹھہ میں موجود ان مساجد کا کیا کہیے جو رسول ص کی رحلت کے پچاس سال کے اندر وجود میں آئیں، اور وہ کون سے آلِ رسول کی ہستیاں تھیں جن کو راجہ داہر نے پناہ دی اور بن قاسم ان کا سر قلم کر کے بغداد اپنے بادشاہ کے حکم سے لے جانا چاہتا تھا۔ امام حسن ع کے پر پوتے عبداللہ شاہ غازی سندھ کیوں آئے اور کس نے انہیں اور کیوں شہید کیا؟

ہم مطالعہ پاکستان زندہ نسل ہیں۔ اپنے ارد گرد کسی سے بات کیجیے وہ ان ہستیوں کو اپنا نجات دہندہ بنا کر پیش کریں گے۔ ان کو اگر نہیں یاد تو نہ اسلام کے حقیقی شخصیات کا پتہ ہو گا نہ اس سرزمین کے ہیروز کا جنہوں نے اپنی جانیں حق کے لیے اور اس زمین کے لیے قربان کیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر حملہ آوروں، ظلم کرنے والے ظالم اور ڈاکو کے عشق میں گرفتار ہیں۔ ہمیں غلام رہنا پسند ہے۔ ہمارے ذہنوں میں تالے لگا دیے گئے ہیں اور پھر ان میں ایلفی لگا دی گئی ہے کیونکہ اگر یہ تالے کھل گئے اور یہ ذہن سوال کرنا سیکھ گئے تو بہت سوال کریں گے۔ بہت، اتنے سوال جو اقوامِ متحدہ میں قرآن کی تلاوت سے لے کر جنازہ رسول ص تک جائیں گے، اس لیے حکمرانوں نے یہی بہتر جانا کہ انہیں تاکہ لگا رہنے دو۔ انہیں سوچنے کی عادت مت ڈالو۔

آج راجہ داہر کا یومِ وفات ہے۔ جس کے بارے میں ہماری سرکاری تاریخ کی کتابیں جھوٹ سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارا سلام ہو اس عہد شعار راجہ پر جس نے مسلمانوں سے مسلمانوں کے نبی ص کی آل کو بچاتے اپنی جان دے دی مگر اپنے وعدہ کی لاج رکھی۔