1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. روز افزوں بڑھتا مذہبی جنون اور خوفزدہ مذہبی اقلیتیں

روز افزوں بڑھتا مذہبی جنون اور خوفزدہ مذہبی اقلیتیں

میں کیسے اعتراض کر سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ کشمیر میں کیا سلوک کیا جا رہا ہے، فلسطین میں مسلمانوں کو انہی کے گھروں سے در بدر کیا جا رہا ہے۔۔ برما میں مسلمانوں پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر عرصہِ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، امریکہ میں ٹرمپ مسلمانوں کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، گجرات بھارت میں مسلمانوں کی املاک چُن چُن کر جلائی جاتی ہیں اوربابری مسجد کی توہین کر کے اس کے ایک حصہ کو مسمار کر کے باقی پر قبضہ کیا جاتا ہے ۔۔۔

جب کہ یہ سب کچھ میرے اپنے ملک میں 1974 سے قبل مسلمانوں کے ہی ایک فرقہ اور بعد ازاں مذہبی اقلیت قرار دیئے گئے احمدی مکتبِ فکر کے لوگوں کے ساتھ مسلسل ہو رہا ہے۔۔

مجھے اس سے سروکار نہیں کہ آپ کا ان کے عقیدے کے بارے میں کیا نقطہِ نظر ہے۔۔۔ اور کیا ایک مہذب دنیا میں کسی کا دوسرے کے عقیدے کے بارے میں نقطہِ نظر اہمیت رکھتا ہے؟

اگر ایسا ہے تو مسلمان بھاگ بھاگ غیر مسلموں کے ممالک کے ہاں پناہ کی درخواستیں کیوں دیتے ہیں؟ جب کہ ان ممالک میں آپ کا مذہب رائج نہیں، ان کا عقیدہ آپ سے نہیں ملتا اور ان کا کلچر مکمل مختلف ہے۔۔۔ مگر آپ کا جواب یہی ہو گا مذہب کا ملک سے کیا لینا دینا۔۔ مذہب تو ذاتی معاملہ ہے وہاں ہمیں ہمارے مذہب کے مطابق عمل کی آزادی ہے سو ہم وہاں رہ سکتے ہیں۔۔۔

جب یہی چیر آپ کو اپنے لیے پسند ہے تو یہی بنیادی انسانی سہولت آپ دوسرے کو دینے سے کیوں انکاری ہیں۔۔۔ کیا احمدی اسی ملک کے بیٹے نہیں؟ اگر ایک پیدائشی امریکی مسلمان کو بحثیت مسلمان تمام حقوق حاصل ہیں وہ مکمل امریکی تصور ہوتا ہے تو پیدائشی پاکستانی احمدیوں کو یہ حقوق دینے سے آپ کیوں انکاری ہیں۔۔؟

ان کو ان کے عقیدے کے مطابق جینے کی آزادی دینے سے آپ انکاری، ان کو ان کی عبادت گاہ بنانے دینے کی اجازت دینے سے آپ راضی نہیں۔۔ حضور اور تو اور اگر وہ لوگ قرآن پڑھنا چاہیں یا دینِ اسلام کی بات کرنا چاہیں سب چھوڑیے کلمہ طیبہ تک پڑھنا چاہیں تو آپ دین کی گستاخی کا مقدمہ بنا دیتے ہیں۔۔ ان کی قبروں تک کو نہیں بخشتے اور لکھا کلمہ کھڑچ دیتے ہیں۔۔۔

تنگ نظری کی انتہا ہے ۔۔ بلکہ پستی کی انتہائیں ہیں جس میں یہ قوم گرتی چلی جا رہی ہے۔۔۔

چلیے کچھ اعداد و شمار کی بات ہو جائے 1984 سے آج کے دن تک اس ملک میں احمدی عبادت گاہیں جنہیں
سیل کر دیا گیا : 32
گرا دیا گیا : 27
جلا دیا گیا: 21
قبضہ کر لیا گیا: 17
زبردستی تعمیر رکوا دی گئی: 52

ایسے حالات میں کہنا کہ پاکستان پاک سرزمین ہے، خدا کا احسان ہے، اسلام کی تجربہ گاہ ہے، قلعہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ کیا جو اوپر بیان کیا گیا یہ ایک مثالی ملک کا نقشہ ہے؟

ہمارے ارد گرد مذہبی منافرت کی مثالیں بکھڑی پڑی ہیں۔۔ کیا ہم بحثیت ایک انسان ان کو انسانی بنیادوں پر نہیں دیکھ سکتے۔۔۔؟

آپ کے مذہبی جذبات ہیں اور وہ قابلِ قبول بلکہ قابلِ ستائش ٹھریں مگر دوسرے مکتبِ فکر کو جذبات رکھنا منع؟ انہوں نے رہنا ہے تو بے غیرت بن کے رہیں؟

کل جو چکوال میں سید المرسلین ختمیِ مرتبت رحمت اللعلمین ص کی جشنِ ولادت با سعادت کے عنوان سے جلوس نکلا اس میں شریک لوگوں کو احمدیوں کی عبادت گاہ کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے مذہبی رہنما کو گالیاں نکالنا اور سپیکر پر لعنتیں بھیجنا کیا زیبا دیتا تھا؟ کیا یہ بنیادی اخلاقیات کی نفی نہیں؟ ایک لمحے کو سوچیے اور سر عقیدت سے انگریزوں کے سامنے جھکا لیجیے کہ انہوں نے کبھی اپنے ممالک میں کرسمس کے موقع پر مساجد کے سامنے کھڑے ہو کر ہمارے مقدسات پر توہین آمیز کلمات نہیں کہے۔۔۔

کل جو چکوال میں ہوا یہ اچانک ایک دن کا کام نہیں تھا ربیع الاول کے آغاز سے ہی چکوال اور مضافات کی مساجد سے احمدیوں کے خلاف نفرت آمیز پیغامات لاوڈ سپیکر پر نشر ہو رہے تھے۔۔۔ فضا 12 دن بنائی جاتی رہی اور آخری دن عاشقان نے بلوائی کا روپ اختیار کر کے احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کر دیا ۔۔ املاک نظر آتش کر دیں۔۔۔ ان کے مقدسات کو گالیاں نکالی گئیں۔۔ علاقے کے احمدی تاحال جان بچانے کو اپنے گھروں سے دور رشتے داروں کے ہاں پناہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔۔۔

خدا را اپنے کیے سے اس سلامتی کے دین اور اس ملک کا مذاق مت بنوائیے۔۔۔ آپ کی یہ تمام بد تہذیبیاں تمام، جہالتیں دنیا کو اس دین سے اور آگے ہی بری طرح عالمی تنہائی کے شکار ملک سے متنفر کر رہی ہیں۔۔۔ ہر مکتبہِ فکر کو اپنے عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دیجیے۔۔۔ اس ملک کو رہنے کیلیے پر سکون جگہ بنائیے ۔۔ جنت دوزخ، دائرہِ اسلام میں داخل یا خارج کا فیصلہ کرنے کا اختیاد خدا و رسول ص کے پاس ہے اور آپ نہ تو خدا ہیں نہ ہی رسول سو عقیدوں کے فیصلے اور جنت دوزخ کے پروانے دینا بند کیجیے۔۔۔

اس ملک میں رہنے والے تمام پاکستانی ہیں تمام کا اس ملک اور اس کی زمین پر ایک جتنا اختیار اور حقوق ہیں ان کو تسلیم کیجیے۔۔ یہی ایک مہذب دنیا میں رہنے کے مروجہ اصول ہیں۔۔ خدا اس ملک کو مذہبی نفرتوں سے نجات دلوائے اور یہاں رہنے والے تمام پاکستانیوں کو آپس مین شیر و شکر ہو کے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین