1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. یومِ قائد، گاندھی جیانتی اور برِّ صغیر کا مستقبل

یومِ قائد، گاندھی جیانتی اور برِّ صغیر کا مستقبل

آپ میں سے بہت سے دوست جو پاکستان میں رہتے ہیں شاید یہ بات ان کے علم میں نہ ہو کہ 2 اکتوبر گاندھی جی کا جنم دن ہے۔۔

ایسا اس لیے کہا کیونکہ پاکستان میں 2 اکتوبر اس حوالے سے یاد نہیں کیا جاتا، ایک عام دن جیسے گزر جاتا ہے۔ ہاں مگر اگر آپ پاکستان سے باہر قیام پذیر ہیں تو اس دن کو وہاں کے اخبارات ضرور دیکھیے گا، آپ کو اخبارات کے ساتھ پورے صفحات کے خصوصی ایڈیشن ملیں گے گاندھی جی کے جنم دن کے حوالے سے۔

ہندوستانی لکھاڑیوں کے علاوہ مغربی دنیا کے لکھاڑی اور نہ صرف یہ بلکہ جس ملک کے اخبار آپ پڑھ رہے ہوں گے وہاں کے لکھاڑیوں کے بھی تفصیلی مضامین آپ کو ان ایڈیشنوں میں ملیں گے، جس میں وہ تمام لوگ گاندھی جی کے افکار، نظریات، خدمات پر روشنی ڈال کر ان کو ہدیہِ تحسین پیش کر رہے ہوں گے۔

آج ۲ اکتوبر نہیں بلکہ ۲۵ دسمبر ہے اور اس تحریر میں آپ کو ۲ اکتوبر کے بارے میں پڑھنے کو مل رہا ہے تو اس کی ایک وجہ ہے مغربی دنیا کو تو رہنے دیجیے، وہ مسلمان۔ ممالک جنہیں ہم اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز و محور قرار دیتے ہیں، جن سے ہم ان کی قرآنی زبان میں گفتنی کی بنا پر اپنی عقیدتوں کا مرکز سمجھتے ہیں، جن سے ہم محبت و اپنائیت کے پیمان باندھتے ہیں، جنہیں اپنا اسلامی بھائی قرار دیتے ہیں، وہاں رہائش پزیر پاکستانی اس بات کے شاہد ہوں گے کہ وہاں کے اخبارات میں جہاں ۲ اکتوبر کو گاندھی جی پر طویل مضامین چھپتے ہیں وہاں ۲۵ دسمبر کو قائدِ اعظم کی سالگرہ والے دن ایک مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں یا ہم اپنے تئیں جزباتیت کا شکار ہو کر یک طرفہ محبت میں مبتلا ہیں۔

قائد جیسی شخصیت کی بدنصیبی یہ ہے کہ انہوں نے ایک محسن کش قوم پر احسان کیا۔ وہ قوم جو آج انہیں بھی ان کے عقیدہ کی بنا پر پرکھتی ہے، نہ صرف پرکھا جاتا ہے بلکہ ان کی قدر و منزلت گھٹائی جاتی ہے۔

ایک لیڈر کی پہچان اس کے آباء و اجداد کا نام، اس کا خاندان، دولت، زمین جائیداد، عقیدہ، مسلک یا شخصی وجاہت نہیں بلکہ اس کے افکار، اس کا کردار، اس کے اصول اور اس کا پیغام ہوتی ہے

یہ ترازو، یہ میزان ہمیں کہیں اور سے نہیں بلکہ حضور نبیِ اکرم ص کی ذاتِ بالا صفات سے ملا۔ آپ ص نے اپنے آپ کو پہلے منوایا پھر پیغام دیا۔۔۔ صادق و امین جب دشمن بھی کہ چکے پھر فرمایا اچھا صادق ہوں تو یہ پیغام سنو، امین ہوں تو یہ لو خدا کی امانت تمہارے تک پہنچاتا ہوں، یہ ہوتا ہے کردار رہنما کا۔

قائد کو بحیثیت رہنما پرکھنا ہے تو نبیِ رحمت ص کے دیے پیمانے پر پرکھیے۔ کیا آپ کا کردار ایسا نہ تھا کہ دشمن بھی آپ کو ایماندار کہتا تھا؟ بحیثیتِ انسان آپ کوہ۔ گراں کی مانند نہ تھے کہ جسے بڑی سے بڑی دنیاوی طاقت حق بات کہنے سے روک نہ سکی؟ جس نے اہلِ خانہ کی جدائی کا دلدوز صدمہ بھی سہا مگر اسے اپنی راہ میں حائل نہ ہونے دیا۔ جس نے زندگی میں کچھ اصول بنائے اور وہ تھے سچ بولنا ہے، سوا خدا کے کسی کے آگے نہیں جھکنا، ہر طرح کے مذہبی، لسانی، مسلکی تعصب سے باز رہنا ہے، کبھی غلط کام نہیں کرنا۔ اور جب انسان کردار کی ان بلندیوں پر ہو تبھی شخصیت میں وہ وقار آتا ہے کہ دشمن بھی آپکے سامنے غلط بات کرنے اور آپکو غلط کام پر آمادہ کرنے سے لرزاں نظر آتا ہے، اور یہ اصول یہ ضابطے یہ شخصی خوبیاں کیوں نہ ہوں نوجوان جناح نے لنکن ان میں اپنے داخلے کے وقت ہی دنیا کے عظیم ترین انسانوں کی فہرست میں حضورِ سرور دوعالم ص کا نام دیکھ کر اس کو تعلیم کے لیے منتخب کیا تھا۔ کیا یہ ان کے شخصی رجحانات کی عکاسی نہیں کرتا تھا؟

آج برِ صغیر کی تاریخ پر قلم اٹھانے والے بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قائد نے کیبنٹ مشن سے مذاکرات میں ملک کو بچانے کی پوری کوشش کی مگر یہ انڈین نیشنل کانگریس کے نہرو اور پٹیل جیسے لیڈران تھے جن کی ہٹ دھرمی قائد کو اس راستے پر لے گئی جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ مگر قائد نے پھر بھی یہ چاہا کہ پاک و ہند پر امن ہمسایوں بلکہ بھائیوں کی طرح رہیں جو بڑوں کی جائیداد میں اپنا حصہ لے کر الگ ضرور ہو جاتے ہیں مگر آپس کے تعلقات میں فرق نہیں آتا۔

پاک و ہند کے تعلقات امریکہ و کینڈا جیسے ہوں گے۔ ایک ملک کا شہری آسانی سے دوسرے میں آجا سکے گا۔ اپنا گھر قائد نے خود بمبئے میں نہیں چھوڑا بلکہ نہرو کو کہا کہ یہ میری امانت ہے میں آتا رہوں گا۔

قائد نے پاکستان بننے سے ۳ دن قبل ۱۱ اگست کو اپنے خطاب میں کہ دیا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ہندو مسلمان سکھ مسیحی سب اپنے مذہب میں آزاد ہوں گے کوئی آپ کو آپ کی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے نہیں روکے گا۔

یہ قائد کا پاکستان کے لیے خواب تھا کیا یہ کبھی شرمندہِ تعبیر ہو پائے گا؟ آج بھی قائد کی جدو جہد جاری ہے۔ آج بھی قائد اپنی منزل کو پانے کے لیے اپنے ماننے وَالوں کو فکری غذا اپنے اصولوں کی پختگی، اور اپنے پیغام کی سچائی سے دے رہے ہیں۔ لیک۔ قائد کی بتائی منزل کو پانے کے لیے قائد جیسا کردار چاہیے۔ کیا قائد کے ماننے والے اس کردار کا مظاہرہ کر پائیں گے؟

یہی آج کے دن کا پیغام ہے۔۔ خدا قائدِ اعظم کی روح کو اعلٰی درجات عطا فرمائے اور ہمیں ان کے افکار پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔