1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید حسین عباس/
  4. بھارت ایک انسانی المیہ

بھارت ایک انسانی المیہ

ہر طرف ایک شور برپا کیا گیا ہے۔ یہ دہشتگرد ہے وہ دہشتگرد ہے۔ مجھے اس مجمع سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دہشتگرد ایک تو دہشتگردی کر رہا ہے اور خود ہی شور بھی مچا رہا ہے یہ اس دہشتگردی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں یہ الزام پہَلے کمیونز م پر تھَا۔ کہ یِہ انسَانیت پر بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ اور امریکہ بڑا انسَانیت کا علمبردار اورامن و آشتی کا چمپین ہے۔ روس کے ٹوٹتے ہی امریکہ نے اعلان کر دیا کہ اب ہمارا ٹارگیٹ اسلام ہے۔ انکو فوری طور پر صلیبی (Crusade) جنگیں یاد آ گئیں۔ اور وہ دن تھا کہ امریکہ اسلام دشمنی میں لگ گیا۔
اب تک تو امریکہ میں بھی 9/11 کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ کیا یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ سب اندرونی کارستانی تھی۔ اسکے بعد امریکہ نے کہاں اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایران، افغانستان عراق، مصر، لیبیا، شام۔ کوئی اسلام سے منسلک ملک بچا؟ جوبچ گئے تھے اب انکی باری ہے۔
اسمیں کوئی بات بھی اب راز نہیں رہ گئی ہے۔ پاکستان بد ترین حَالات کے باوجود اب تک کیسے محفوظ ہے(ماشاءاللہ) مولا تیرا کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت میں ہزاروں سال سے آج تک انسانی المیہ موجود ہے مگر کسی چیمپین کو خیال نہ آیا۔ جب کبھی وقت مہربان ہوا تو انکی کسی ایک مشکل کو حل کر دیا گیا۔ جیسے یہاں کے باشندوں میں ستی کی رسم کہ بیوی کو شوہر کے مرجانے پر اسکی لاش کیساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا۔ باہر سے آئے ہوئے حکمران نے بزورِ طاقت روک دیا۔ انگریزوں کے زمانے تک (برہمن کے مطابق) نیچی ذات کے لوگوں کو شادی کرنے پر اپنی بیوی پہلے تین روز برہمن کے پاس چھوڑنی پڑتی تھی تاکہ وہ اس پر ہر قسم کا تصرّف کر لے۔ ویسے بھی جب چاہتے تھے ان کی عورتیں اٹھا لیتے تھےا س برہمنی قانون کو انگریزوں نے ختم کیا۔ جس پر شودر(دلت) سماج انگریزوں کی بہت احسانمند ہے۔
ان شودروں کو برہمن نے زبردستی انسانی فضلہ اٹھانے پر لگایا۔ اور پا بند کیا کے ان کودوسرا کوئی روزگا راختیا ر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پڑھنے لکھنے سے فارغ اور ترقّی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ برہمن کے مطابق بھگوان نے انہیں برہمن کی خدمت کے لیئے پیدا کیا ہے اور ان کو جو انعام و اکرام ملنے والا ہے وہ مرنے کے بعد بھگوان خود دیں گے۔
آج بھی کچھ بدلا نہیں ہے۔ انکو کوئی اور نوکری نہیں دی جاتی۔ جب یہ بھوکے مریں گے تو یہی کام کریں گے۔ ورنہ اپنی بستیوں سے دور جنگلوں میں ڈھکیل دیتے ہیں۔ ذات پات کے فرق نے بھارت کی پّچاسی فیصد آبادی کو جو شودر، دلت، اچھوت، نام سے پہچانی جا تی ہے۔ بڑی مشکل میں ہے۔ ایک اندازے کیمطابق، صفائی کا کام کرنے والوں کی آبادی کوئی پچّیس کروڑ ہے۔ ان کو مہذب دنیا کی ہر سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔
انکو انکی آبادی کی بنیاد پر کوئی حق دیا جائے اس سے بچنے کے لیئے ۱۹۳۲ کے بعد پھر کبھی مردم شماری نہیں ہوئی، اور اب مودی کا دور ہے۔ یہ بھی کوئی بڑی ذات کا نھیں ہے مگر چونکہ یہ برہمنوں کا غلام ہے لِہٰذا یہ بھی مردم شماری کے خلاف ہے۔
بھارت کے میڈیا کو دیکھئے ہمہ وقت پاکستان کو دہشتگرد کہتے ہوئے تھکتا نہیں۔ جو کوئی بھارت میں حق بات کرے، اسکو دیش دروہی (غدّار) کہتے ہیں۔ یا کہتے ہیں کہ پاکستان چلے جاؤ۔ اسی بنیاد پر مختلف الزام لگا کر مجمع (Mob lynching) لگا کر قتل کر دیتے ہیں۔ پھر بھی اس بھارت کو کوئی دہشتگرد نہیں کہتا۔
کشمیر مَیں Article 370/35A))کو ختم کرنا مسلم آبادی کو کشمیر سے بیدخل کرنے کیلئے ہے۔ پھر انکے ناپاک عزائم دیکھئے۔ کشمیر کی زمِین خرید لیں گے۔ اور کشمیر کی لڑکیاں لے آئیں گے۔
بھارت ایک دہشتگرد ملک ہے۔ اور یہ اپنی غریب ترین آبادی پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے۔ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ دہشتگردی کا مرتکب ہے۔ اس ملک مِیں (اسکےبقول) شودر، دلت، اچھوت، کی کہیں شنوائی نہیں ہے۔ حد ہے کہ کوئی عدالت بھی انصاف دینے کو تیّار نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ لوگ(بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا پوتا)بھارت سے باہر (انگلینڈ، نیدر لینڈ، ہالینڈ، اور امریکہ میں UNO کے دفتر کے سامنے احتجاج کریں گے۔ شائید کہ دنیا کا ضمیر جا گے۔ یا مودی کو شرم آئے۔
میری پوری انسانیت سے اپیل ہے کہ وہ بھارت کو دہشتگرد قرار دے۔ اور اس وقت تک اسکا بائیکاٹ کریں۔ جب تک وہ اپنی دہشتگردی سے باز نہیں آتا۔

سید حسین عباس

سید حَسین عبّاس مدنی تعلیم ۔ایم ۔اے۔ اسلامیات۔ الیکٹرانکس ٹیلیکام ،سابق ریڈیو آفیسر عرصہ پچیس سال سمندر نوردی میں گذارا، دنیا کے گرد تین چکر لگائے امام شامل چیچنیا کے مشہور مجاہد کی زندگی پر ایک کتاب روزنامہ ’امّت‘ کیلیئے ترجمہ کی جو سنہ ۲۰۰۰ اگست سے اکتوبر ۲۰۰۰ تک ۹۰ اقساط میں چھپی۔