1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید حسین عباس/
  4. بھارت اور ہماری شہ رگ

بھارت اور ہماری شہ رگ

بھارت ہماری شہ رگ پر حملہ آور ہوا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ مِیں بحث ہونی ہے۔ مگر ہماری اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ ہماری پارلیمنٹ مِیں پراڈکشن آرڈر پر زور لگایا جارہا ہے۔ ہمارے چندپارلیمنٹیرین اگرچہ سزا یافتہ نہیں مگر مستند جرائم کیلئےملزم ہیں۔ اور عدلیہ کے مسائل یا قانونی مجبوریاں کیا ہیں۔ ہماری لئے اس پر تبصرہ ایک مشکل کام ہے۔ مگر حقائق کیا ہیں۔ دنیَاَ جَانتی ہے۔ پتّہ پتّہ بوٹا بوٹا حَال ہمارا (انکا)جَانے ہے۔ گل (قَانون) ہی نَہ جَانےباغ(پاکسِتان) تو سَارا جَانے ہے۔
سَارا پاکستان جَانتا ہے کہ منی لانڈرنگ ایک طرف، ان لوگوں نے جو قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے، اس پر کوئی کار روائی نہیں ہوئی حالانکہ سب سے پہلے ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا۔ اور کم از کم پاکستان مِیں انکی جائداد فوری طور پر ضبط کی جاتی۔ لوٹا ہوا مال تو واپس آ ہی جاتا۔
ہماری اسمبلی میں جاہلوں مجرموں، بد کاروں اور غدّاروں کا ایک گروپ ہے۔
سب سے پہلے ان کےجرائم کی سزا دی جا چکتی پھر ہمیں مسائل پر بحث کرنا آسان ہوتا۔ ان مجرموں کو ملا کر ہم اسمبلی میں خاک بحث کرنے چلے ہیں؟ دیکھئے مشاہداللہ کی دلیل کہ عدالت سے سزایافتہ مجرم کیلئے کہ رہا ہے کہ نوازشریف کو نکالو وہ مسئلہ حل کر دے گا۔ دوسری طرف زر داری جیسے ملزم کو بڑا مقام دیا جا رہا ہے۔ مشاہد حسین سیّد کا کہنا ہے کہ محسن داوڑ اور رانا ثنا اللہ کو بھی پراڈکشن آرڈر پر لا نے کو کہا۔ جس پارلیمنٹ مِیں مْجرمِین اور ملزمِین کو یِہ مقَام دیا جَاتا ہے وہ بھَلا انڈیا جیسے ملک سے کیَا بات کر سکتی ہے۔ ہم مسَلمان ہیں ہمارا دشمن سے نمٹنے کا روائیتی طَریقَہ یِہ ہے کہ ہم پاک ہو کر۔ کم از کم وضو کرکے دشمن کے سَامنے اس امّید پر میَدان مِیں آتے ہیں کہ اللہ ہماری مدد فرمائے گا۔ ہمارے ہاں ان ناپاکوں کو سَاتھ لاکر اللہ کی تائید تو حَاصِل نہِیں ہو سَکتی بلکہ شیطان کی طرف سے ہمارے لیئے تخریب کے عَلاوہ کیَا مِل سکتا ہے۔
ہمیں پہلے اپنی زندگیوں کو پاک کرنا پڑے گا۔ اور اگر ہم خَالص اسِلامی انداز مَیں اپنے مَسائل کو ڈیل کریں گے۔ جب تو کامیَابی ہماری ہے ورنَہ لبرل اسٹائل مِیں سوائے ناکامی اور ذلّت کے کچھ بھی حَاصِل نہیں ہو گا۔
کشمیر پر انڈیا کے رویےکا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے وزیرِ اعظم کا ریاست مدینہ اور ایاّکَ َنعبدْ و ایّاکَ نَستعین کا تاثر غائب تھا۔ ہر طرف دوسروں سے رابطے کی خواہش زیادہ نظر آئی۔ ولَا تحزن انّاللہ معنا(غم زدہ نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ )کا تاثر نا پید تھا۔ ضیاءالحق مَرحوم نے اسی زور پر راجیو گاندھی سے اکیلے نمٹ لیا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی انڈیا کے ساتھ امریکہ اور اسرا یئل موجود تھے۔ مگر وہاں، اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔ (اللہ کے شیر بھیڑیوں کا رویہ اختیار نہیں کرتے) والا معاملہ تھا۔ فواد چودھری کی تقریر مِیں بہر حَال ایمَان کی رمق تھی۔ مجرمِین اور ملزمِین کو شامِل کر کے ہم نے ایوان کے تقدّس کوتباہ کر دیا۔ مسلمانوں کو ہمیشہ کافرون سے مقابلے پر اللہ کی رضاء پر نظر رکھنی چاھیئے۔ دنیا مِیں ہمارہ کوئی قابلِ اعتماد دوست نہیں، الّا یِہ کہ اللہ کسی کو کھڑاکردے۔ ہم سنّتِ ابراہیم کے پیروکار ہیں۔ ہمیں کسی کی مدد پر امّید نہیں رکھنی چاہیئے۔ ہمیں اللہ سے کہنا چاہئے کہ( ربّ انّی لما انزلتا الیہ من خیر فقیر) اے میرے رب تو اپنے خیر میں سے جو میری طرف نازل کرے گا۔ میں اسکا محتاج ہوں۔
رویئداد خان صاحب نے کہا تھا کہ اللہ ہمیں معاف کرے ایک سنیما کا ٹکٹ بلیک کرنے والا پاکستان کا صدر بن گیا۔ آج وہ لال بجھکّڑ یہ بتا رہا ہے کہ اگر اسکے زمانے میں یہ واقعہ ہو تا تو یہ کیا تیر ما ردیتے۔ ہمیں اپنی کامیابی کیلئے پہلے ایک پاکیزہ مسلمان ثابت کرنا ہو گا۔ اور اپنے ایوان کو بھی پاک رکھنا ہوگا۔ جو لوگ حصّہ لیں وہ لوگ کم از کم اعلٰی کردار کے مالک ہوں۔ اگر چور چکار بیچ مِیں بولیں گے تو سارا تاثّر کمزور ہو جائے گا۔
ہمارے ہاں کشمیر کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ مگر اس کو حل کرنے کیلئے ہم نے کیا کیا ہے فضل ا لرحمٰن کو کشمیر کیلئے سیاسی رشوت دیتے رہے۔ اور اسنے آج تک کچھ نہیں کیا۔ بلکہ اس مسئلے کو بھلا دیا تھا۔ آج کہَہ رہے ہیں کہ میں تیر مار دیتا۔
انڈیا مِیں اَمِت شاہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کے لیئے کہَہ رہا ہے۔ کہ ہم اسکو لیں گے چاہے جان دینی پڑے۔ مگر ہمارا موقف بہت پْھس پْھسَا تھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ آرمی چیف ایک با کمال ادارے کے سر براہ ہیں اور انکی رائے کا فی تھی۔ ایوان میں جس گھٹیا پن کا مظاہرہ ہوا جس نے ایوان کا تقدّس برباد کر دیا۔
زرداری کی تقریر کا نوٹس لیا جانا چاہئے عمران خان صاحب ایمان کا زور پیدا کریں اور ذکر(اللہ) پر زور رکھّیں انشا اللہ، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

سید حسین عباس

سید حَسین عبّاس مدنی تعلیم ۔ایم ۔اے۔ اسلامیات۔ الیکٹرانکس ٹیلیکام ،سابق ریڈیو آفیسر عرصہ پچیس سال سمندر نوردی میں گذارا، دنیا کے گرد تین چکر لگائے امام شامل چیچنیا کے مشہور مجاہد کی زندگی پر ایک کتاب روزنامہ ’امّت‘ کیلیئے ترجمہ کی جو سنہ ۲۰۰۰ اگست سے اکتوبر ۲۰۰۰ تک ۹۰ اقساط میں چھپی۔