1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید حسین عباس/
  4. کرونا وائرس

کرونا وائرس

آج ستّرسالوں بعد بھی ہم آزاد نہیں ہیں۔ مملکتِ اسلامیہ تو ہمارا نام نہاد تشخّص ہے۔ ورنہ ہمارا ہر عمل مغرب کے مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور مغرب کی ایک مخصوص نظریات کے زیرِ اثر نظر آتا ہے۔ کہنے کو ہم اسلامی ملک ہیں اور کفر و الہاد ہمارا طرّہ امتیاز ہے۔ اس کی ایک فوری مثال ہماری شرح سود ہے۔ جبکہ ساری دنیا نے اس موجودہ وبائی صورتحال میں شرح سود صفر کی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں تیرہ سے کم کر کے ساڑھے بارہ کردیا گیا ہے۔ بڑا کمال کیا؟ سودی کاروبار کرنا اللہ اور رسول سے جنگ ہے۔ کہاں گیا ریاستِ مدینہ کا تصوّر؟

مسلمانوں کی ایمانی طاقت پاکستانیوں نے دیکھی ہے مگر اسکے باوجود ان کو یقین نہیں آرہا۔ آپ کے سامنے ہے۔ طالبان نے اسباب نہیں دیکھے اور نہ سوچے۔ بلکہ ایمان کے بھروسے اللہ سے مدد پائی اور اننیس(۱۹) سالوں میں امریکہ کو گھٹنوں پر گرا دیا۔ اندازہ نہ لگائیے آپ کو معلوم ہے کہ پرویز مشرّف اتنی بڑی فوج کے تصوّر سے خوف زدہ ہوکر ہر شرط ماننے پر تیار ہو گیا تھا۔ مگر طالبان نے اسکو للکارہ اور اللہ پر انکا بھروسہ اسقدر مضبوط تھا کہ ملاء عمر امریکی ہیڈ کوارٹر سے کس قدر قریب رہتے تھے مگر امریکی ان کو نہ پا سکے۔

ہمارے ہاں سارا عمل دخل غیر اسلامی طاقتوں کا ہے اور ہم اسی بنیاد پر امریکہ اور اللہ دنوں طرف سے انعام کے منتظر ہوتے ہیں۔ملک ہمارا۔ قانون یہودو نصاری کا۔ وہ ہمیں اور ہماری ُذریّات کو مٹانے پر تلے ہیں ہم پابندی سے وکسینیشن (vaccination) کی نعمت سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ ستّر سال سے ملک میں ایسی کوئی لیباریٹری نھیں ہے جو پانی کا تجزیہ کر سکے۔ کسی بھی فیس کی ادائیگی پر جواب وہی ہے، یہ انسانی استعمال کے لیئے موزوں نہیں ہے یا موزوں ہے۔ آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اس میں یہ اجزا پائے گئے ہیں لِہٰذا۔۔۔۔۔۔ موزوں یا غیر موزوں ہے۔ تو بھلا ان کی کیا مجال کہ یہ بتا سکیں کہ اس انجکشن میں کتنا خیر ہے اور کتنا شر ہے۔ کوئی ادارہ ہے جو ہمارے علاقے میں پیدا ہونے والے جڑی بوٹی میں ہمارے لیئے خیر ڈونڈھ پائے۔

مغرب کیا بنا رہا ہے حرام ہے یا حلال ہے۔ ہماری بھلائی دیکھ رہا ہے۔ یا اپنے مذموم عزائم کو تکمیل دے رہا ہے۔ دوا انسانی ضرورت ہے۔ یہا ں مال بنانا بھی انسانی فطرت ہے۔ اب تک تو یہ سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ ایچ آئی وی (ایڈ) ہیپاٹائیٹس چکن گونیا اور ڈنگی کے وائرس مصنوعی ہیں۔ آج کے دور میں یہ حیاتیاتی جنگ ہے۔ مگر ہمارا بچائے جانے میں کتنا حصّہ ہے۔ جب ہم بچّے تھے تو صرف دو یا تین اقسام کے ٹیکے لگتے تھے۔ آج ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ سارے ٹیکے باہر سے آتے ہیں۔ ذیابیطس، کولسٹرول، بلڈ پریشر، پوری طرح متنازع ہے۔ مغرب کا یہ اسٹائل ان کی تجارت کے فروغ کےلیئے ہے۔ مشرق میں ہمارا طریقہ علاج بہت کارگر ہے مگر مغرب کا پرپگنڈہ، نہ تو ہمیں کچھ کرنے دیتا ہے۔ مزید یہ کہ ہم کو جاہل اور بیک ورڈ کے نام سے بدنام کرتے ہیں۔ اور ہماری کوششوں کے ساتھ مغرب جو زیادتی کرتا ہے۔ کیا آپ عافیہ صدّیقی۔ عرفہ کریم کو بھول گئے ہیں۔ عبدالقدیر خان اور پاکستان صرف اللہ کی مدد سے محفوظ رہے۔ اور ہم ایٹمی ملک بن گئے۔ ورنہ مغرب ان کی جان کا درپے تھا۔ اب اس کرونا وائرس میں مغربی لوگ چاہتے ہیں کہ آدمی کرونا سے بچ جائے اور بھوک سے مر جائے۔ وزیر آعظم نے بڑی دانشمندی سے اس مکمل لاک ڈائون کو روکا ہے۔ آج یہ بھی جاننا مشکل ہے کہ محب وطن اوردانشمندی سے دشمنی کون کر رہا ہے؟ یا نادان دوست دانا دشمن برابر ہوتے ہیں۔

پاکستان کو پاکستان بننا پڑے گا۔ منافقت سے ہم اپنی جان نہیں بچا سکتے۔ ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ ہم انشااللہ مغرب کے دبائو اور سحر سے نکل جائیں گے۔ مگر اس جنگ میں ہم اک با رپھر چت نظر آ رہے ہیں۔ ہماری اکثر اشرافیہ مغرب سے پڑھ کر آ تی ہے لِہٰذا لال بجھکّڑ جو کہے گا وہی ماننا پڑے گا۔ ہندوستان سے ہماری لڑائی کا سبب بھی یہی ہے۔ مغرب اسمیں پورا دخل رکھتا ہے۔ ورنہ آیور وٰدک اور چین کی دوا سازی بے مثال ہے۔ اور اس کرونا پر انہوں نے اپنی دوائوں سے قابو کیا ہے۔

طبّ مشرق بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ مگر ایک سازش کی بنیاد پر ہمارے طبّ مشرق کو مکمّل تباہ کر دیا ہے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ اسمیں ہمدرد کا بڑا حصہ ہے۔ ہم مجبور لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ بس اللہ ربّ العزت سے ہی اپنی حفاظت مانگ رہے ہیں۔ ہمارا جس وائرس سے واسطہ ہے۔ وہ کرونا سے بھی بڑا ہے۔ رب انّی ِلمَا اَنزَلتَا الیّہ مِن خَیر فَقیر۔ ہمارے رب تیرے خیر کے ہم محتاج ہیں۔

سید حسین عباس

سید حَسین عبّاس مدنی تعلیم ۔ایم ۔اے۔ اسلامیات۔ الیکٹرانکس ٹیلیکام ،سابق ریڈیو آفیسر عرصہ پچیس سال سمندر نوردی میں گذارا، دنیا کے گرد تین چکر لگائے امام شامل چیچنیا کے مشہور مجاہد کی زندگی پر ایک کتاب روزنامہ ’امّت‘ کیلیئے ترجمہ کی جو سنہ ۲۰۰۰ اگست سے اکتوبر ۲۰۰۰ تک ۹۰ اقساط میں چھپی۔